حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت مبارکہ 
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہآ  عرب کے مشہور قبیلے قریش سے ہی تعلق رکھتی تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے وہ طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں  ان کا سلسلہ نسب یہ ہے حضرت خدیجۃالکبری بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی قریشةالاسدیہ  ان کی ولادت باسعادت کا سن 556 اس میں متعین کیا جا سکتا ہے ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا ان کے والد عرب کے مشہور تاجر اور قریش میں نامور اور معزز تھےانہوں نے مکے میں آکر سکونت اختیار کی اور بنو عبد الدار کے حلیف بنے  ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوی میں شامل ہو جاتا ہے ۔معاشی اور اخلاقی وصف۔ :۔حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہآ  قبیلہ قریش کی ایک نہایت معزز اور باوقار شخصیت تھیں۔ ان کی ذات میں صورت سیرت اورفہم و فراست کی بے شمار خوبیاں یکجا ہو گئی تھیں ان تمام محاسن کے ساتھ ساتھ آپ ایک مالدار خاتون تھی اور عرب کی روایات کے مطابق اپنے غلاموں کے ذریعے تجارت کیا کرتی تھیں قریشی تاجروں میں ان کی بڑی حیثیت تھی اکثر تجارتی قافلے میں جتنا مال کل قریش کا ہوتا اتنا مال اکیلی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کا ہوتا تھا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تجارتی تعلق:۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال ہوئی تو اس وقت آپ کی صداقت اور امانت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا یہاں تک کہ زبان خلق نے آپ کو صادق اور امین کا لقب دے دیا حضرت ابو طالب کے ساتھ تجارتی سفر کرتے رہنے کے باعث آپ تجارت کے اصولوں اور قاعدوں سے خوب واقف ہو چکے تھے آپ کو تاجروں تجارتی منڈیوں اور کاروباری معاملات سے واقفیت ہو گئی تھی کاروباری لین دین میں کھر ے تھےجس کے ساتھ بھی لین دین کیا اس نے آپ کی شرافت اور صداقت کی گواہی دی جلد ہی تجارتی حلقوں میں آپ کی ساکھ بن گئی ۔آہستہ آہستہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  دیانت اور سچائ کی خبر خدیجۃ رضی اللہ تعالی عنہ کے کانوں تک بھی پہنچی لہذا آپ نے ابو طالب کی معرفت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پیغام بھیجا اور اور اپنا تجارتی مال لے جانے کی دعوت دی اور یہ پیشکش بھی دی کہ کتنا منافع دوسروں کو دیتی ہوں آپ کے آپ کو اس کے مضاعف دونگی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرمایا اور مال تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ہو جائے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہآ  کا ایک غلام میسرہ بھی آپ صلی اللہ وسلم کے ساتھ تھا جو آپ کی خدمت کیا کرتا اور آپ کی ضروریات کا متکفل تھا ۔جب آپ ملک شام میں پہنچے اور بازار بصرہ میں راہب نسطور نام کی خانقاہ کے نزدیک اترےوہ راہب میسرہ کی  جانب آیا وہ جانتا تھا ۔کہا ! اے میسرہ یہ کون ہے جو درخت کے نیچے اترا ہے ؟ میسرہ نے کہا اہل حرم سے قریش سے ہے راہب نے کہا سوائے نبی کے اس درخت کے نیچے کوئی نہیں اترا ہے پھر اس نے پوچھا کیا ان کی دونوں آنکھوں میں سرخی ہے جو کبھی جاتی نہیں ؟میسرہ نے جواب دیا "ہاں" یہ سن کر راہب بولا یہ وہی ہے اور یہ  خاتم النبیین ہیں کاش میں ان کو پاؤں جب یہ مبعوث ہونگے اور میںسرہ سے کہا  ان سے جدا نہ ہونا اور نیک نیتی سے ان کے ساتھ رہنا کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو نبوت کا شرف عطا کیا ہے۔سفر شام سے جب واپس مکہ آئے تو حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر کے بالا خانے میں تشریف فرما دیں آپ کو آتے دیکھا کہ آپ کے ساتھ بادل بھی چل رہا تھا جو آپ کو دھوپ سے محفوظ رکھے ہوئے تھا ۔میسرآنے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا  سے بیان کیا کہ میں نے تمام راستے یہی دیکھا اور اس راہب کے قول اور وصیت کی بھی خبر دی ۔اس تجارت میں مضاعف( دگنا) نفع  بحکم ربانی ہوا اور خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہ نے جو سنا اور دیکھا اس سے ظاہر ہو گیا تھا کہ آپ بے شک ساری مخلوق کی طرف اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں  ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح مبارک :۔اس وقت حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلے ہو چکی تھی ان کا پہلا نکاح عتیق بن عائد مخزومی سے ہوا ان سے ان کی ایک لڑکی پیدا ہوئ اس کا نام ہند تھا اسی بناء پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا ام ہند کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ ان کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کا دوسرا نکاح ابوہالہ بن زراہ تیمی سے ہوا ۔ان سے ان کے  دو لڑکے ہوے ایک کا نام حارث اور دوسرے کا نام بھی ہند تھا۔  یہاں مورخین میں اختلاف ہے کہ پہلا نکاح کس سے ہوا اس نے قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کو لیا ہے کہ پہلا نکاح عتیق بن عائد مخزومی سے ہوا اور کچھ جرجانی رضی اللہ علیہ کے قول سے اتفاق کرتے ہیں صاحب الاستیعاب نے بھی جرجانی رضی اللہ علیہ کے قول کو درست کہا ہے۔۔امور مذکورہ بالا کو مدنظر رکھ کر ملک شام کے سفر کے تقریبا تین ماہ بعد لیلیٰ بن منیہ کی بہن نفیسہ جو آپ کی سہیلی تھیں  ان کی وساطت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیجا  ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کی خبر اپنے چچاؤں کو دی انہوں نے اس کو قبول کیا بس تاریخ معین پر ابو طالب امیر حمزہ عمر بن اسد اور کچھ روایات میں عمرو بن خویلد رضی اللہ عنہم کےنام آتے ہیں کہ انہوں نے ان کا نکاح کر دیا شادی کے وقت ان کی عمر چالیس برس تھی جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک پچیس برس تھی حضرت ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور مہر میں 500 درہم اور کہیں چھ اؤنٹوں کا بھی ذکر ملتا ہے کہ مقرر کیے گئے  ۔حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا  سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد :۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی جن میں دو لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں ان کے نام یہ ہیں  
حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ 
ان ہی کی نسبت سے آپ صلی اللہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سب سے پہلے بعمر دو سال وصال فرمایا۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ 
طاہر و طیب بھی ان کے نام آئے ہیں آپ بعثت نبوی کے بعد پیدا ہوئے۔ بعض علماء کرام طاہر و مطاہر حضرت عبداللہ کے ہی نام بتاتے ہیں اور علماء کا ایک گروہ ان تین ناموں سے تین فرزند مراد لیتے ہیں۔
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی سب سے بڑی بیٹی ہیں ان کا نکاح مکہ میں ہی ابو العاص بن  ربیع بن عبد شمس بن عبد مناف سے ہوا تھا ۔
حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی دوسری بیٹی ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی٣٣ سال کی عمر میں پیدا ہوئیں ان کا نکاح مکہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا تھا اس وقت مکہ بھر میں یہ بات مشہور تھی کہ سب سے اچھا جوڑا جو دیکھا گیا وہ رقیہ اور عثمان ہیں ۔
حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا 
حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری بیٹی ہیں تین ہجری میں ان کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا اسی لئے ان کو ذوالنورین کا خطاب ملا کیونکہ احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو جگر گوشے یکے بعد دیگرے ان کے سکینہ قلب بنائے گئے ۔
ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ خدائے بزرگ کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی تجھ سے بیاہ دوں۔ سیدہ ام کلثوم کی کوئی اولاد نہیں 9 ہجری میں ان کا انتقال ہوا ۔
حضرت سید النساء العا لمین فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا 
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہ کے بطن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں ان کی ولادت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا 41 سال تھی حضرت سیدہ کی وفات 3 رمضان المبارک 11 ہجری کو ہوئی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت 
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت تھی جب وہ عقد نکاح میں آئیں تو ان کی عمر چالیس برس کی تھی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 25 سال کے تھے نکاح کے بعد وہ 25 برس تک زندہ رہیں ۔ان کی زندگی تک  حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا پر کرتی تھی حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھی لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی کہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم فرمایا کہ خدیجہ کو  موتی کے محل کی بشارت دے دیجئے  اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح کرتے تو ان کے ملنے والی عورتوں کو حسب حال گوشت بھیجتے  (بخاری )
ایک دفعہ ان کے انتقال کے بعد ان کی بہن ہالہ حاضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئی اور اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ ان کی آواز ہے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ملتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں آواز پڑی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا یاد آگئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے جھجک  اٹھے اور فرمایا کہ "ہالہ ہوں گی"  ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی موجود تھی ان کو نہایت رشک ہوا  بولیں کہ " آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں جو مرچکیں اور خدا نے ان سے اچھی بیویاں دی ۔" صحیح بخاری میں یہ روایت یہی تک ہے لیکن دوسری روایت میں ہے کہ جواب میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انہوں نے تصدیق کی جب لوگ کافر تھے تو وہ اسلام لائیں ۔ جب میرا کوئی معین نہ تھا تو انہوں نے میری مدد کی " 
وفات 
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال ہجرت سے تین سال قبل ہوا جبکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا 65 سال کی عمر میں تھیں۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے دس سال بعد ماہ رمضان المبارک میں ان کا وصال ہوا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو مقبرہ حجون میں دفنایا گیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود قبر شریف میں اتر کر دعائے خیر فرمائی جبکہ اس وقت ابھی نماز جنازہ مشروع نہیں ہوئی تھی۔ جس سال سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وصال فرمایا وہ سال عام الحزن (غم کا سال) سے یاد کیا جاتا ہے  ۔ 
از قلم 
پروفیسر عالمہ روبینہ امین