حضرت ساره رضي الله تعالیٰ عنها
==============================

1.حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ تھیں آپ خدا کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔
2. تورات کی بعض روایات کے مطابق عراق کے قصبے میں پیدا ہوئے اور اہل فدان میں سے تھے یہ قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی اور ستارہ پرست تھی۔حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو دعوت حق دی تو پوری قوم ان کی جان کی دشمن ہو گئی آخر آپ علیہ السلام کو سب سے بڑے مندر کے بتوں کو توڑنے اور معبودوں کی توہین کے الزام میں پکڑ کر بادشاہ وقت نمرود کے سامنے پیش کیا گیا بادشاہ نے حکم کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے چنانچہ بہت بڑا الاؤ دہکایاگیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں ڈال دیا گیا مگر اللہ کی قدرت کاملہ سے آگ خود بخود سرد ہوگی۔
3. پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ وہاں سے ہجرت کر گئے اور مختلف ممالک میں تبلیغ کرتے ہوئے فلسطین چلے گئے کچھ عرصہ بعد شیکم( نابلس) سے ہوتے ہوئے مصر کی حدود میں داخل ہوئے.

3. حضرت سارہ رضی اللہ عنہا حسن و جمال کی پیکر تھیں اس وقت مصر میں فرعون کی حکومت تھی اس کے امیر اور درباریوں نے جب ایک اجنبی عورت کے بے مثال حسن و جمال کو دیکھا تو دنگ رہ گئے.

4. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بدنیتی کو فورا بھانپ لیا اور آپ نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ یہاں کا بادشاہ جابر اور ظالم ہے اگر کسی خوبصورت عورت کو دیکھتا ہے تو زبردستی اسے پکڑ کر اپنے محل کی زینت بنا لیتا ہے اگر ایسی عورت کے ساتھ اس کا شوہر ہو تو فوراً قتل کرا دیتا ہے اور اگر کوئی اور عزیز ہے تو اسے کچھ نہیں کہتا چونکہ تم میری دینی بہن بھی ہو اور یہاں میرے اور تمہارے سوا. کوئی دوسرا مسلمان نہیں اس لیے تم فرعون سے کہہ دینا کہ یہ میرا بھائی ہے .
5. فرعون کے امیر نے اس کے پاس جا کر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے حسن کی بے حد تعریف و توصیف کی تو بادشاہ نے اسے پیش کرنے کا حکم دیا فرعون کے سپاہیوں نے حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کو پکڑ کر فرعون کے محل میں لے گئے انہوں نے اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل کر کے فرعون کو مطمئین کر دیا۔
6.رات کو جب فرعون نے شراب کے نشے میں بدمست ہو کر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا پر حملہ کرنا چاہا تو اس کا ہاتھ شل ہو کر رہ گیا اور وہ انہیں چھو تک نہ سکا فرعون یہ دیکھ کر بہت گھبرایا اور حضرت سارہ سے درخواست کی کہ وہ اس کا ہاتھ ٹھیک کرنے کے لیے اپنے خدا سے دعا کریں فرعون نے وعدہ کیا کہ اس کا ہاتھ درست ہو گیا تو وہ انہیں رہا کر دے گا حضرت سارہ نے اللہ تعالی سے دعا کی تو تندرست ہو گیا مگر اس نے وعدہ خلافی کی دوبارہ سے ان کے پاس آیا تو پھر ہاتھ شل ہو گیا اس مرتبہ بھی ایسے ہی ہوا تو اس نے پریشان ہو کر کہا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت نہیں ہے کوئی جن بھوت ہے اسے فورا یہاں سے لے جاؤ. فرعون نے حضرت سارا کو واپس کرتے وقت اپنی بیٹی حاجرہ کو بھی ان کے ساتھ کر دیا اور کہا اسے بھی اپنے ساتھ لے جاو تاکہ مصر کی یہ شہزادی عمر تمہاری خدمت کرتی رہے۔
7. حضرت سارہ نے واپس آکر اپنے شوہر نامدار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام حالات سے آگاہ کیا اور مبارکباد دی کہ اللہ نے ان کی عفت و عصمت کی حفاظت کی اور مصر کی شہزادی ہاجرہ کو خادمہ بنا کر بھیجا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی وقت سجدہ شکر بجا لائے.
8. فرعون مصر نے حضرت سارہ کے واقعے کو کرامت سے تعبیر کیا اور اس بات پر ناراض ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے کیوں نہ بتایا کہ سارہ ان کی بہن نہیں بیوی ہیں چنانچہ اس کے بعد بڑے انعام و اکرام اور عزت کے ساتھ انہیں مصر سے رخصت کیا پھر اپنے خاندانی رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے اپنی بیٹی ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا.
9. حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی پوری زندگی پاکدامنی، شوہر کی رضا جوئی اور ایثار و قربانی کی سچی تصویر ہے ۔ہجرت کے بات انہوں نے اپنے جلیل القدر خاوند کے ساتھ جگہ جگہ کا سفر کیا آپنے ملک اور خاندان کو چھوڑا اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے آرام و سکون کو قربان کردیا۔
انہوں نے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت حق پر لبیک کہا جب پوری قوم خاندان کے سب لوگ اور دوست اور رشتہ دار سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جان کے دشمن ہو رہے تھے ۔


10.ان کی پاکیزگی میں مسلمان عورتوں کے لیے بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے کہ کس طرح ان کی فطرت عصمت کی حفاظت کے اسباب خود اللہ نے فراہم کردیئے کیونکہ انہوں نے محض رضائے الہی کیلئے اپنے شوہر کے ساتھ بے پناہ مسائل برداشت کیے تھے ۔