📚🌹🖋 *بسم اللہ الرحمن الرحیم* *مفکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی* : *ولادت و ابتدائی زندگی* علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعدہ 1294ھ) کو ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ اقبال کے آباء و اجداد جو کشمیری برہمن تھے اور گوت کے سپرو تھے نے اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ آپ کے والد شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علماء کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال جب سنِ شعور کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے جو محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ شیخ نْور محمد کا وہاں آنا جانا تھا۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتداء ہوئی۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آرہی تھی۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے؟ معلوم ہوا تو وہاں سے اْٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے۔ دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کر دیا۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کردیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے۔ اسکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حسن ان عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں۔اس اچھے زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتا تھا۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے۔ تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے، جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی۔ اس کے علاوہ ادبیات، معقولات، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند ہوکر نہ رہ جائے بلکہ طرزِ احساس بن جائے۔ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔ مولانا کی تدریسی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معمول قضا نہیں کرتے تھے۔ قرآن کے حافظ بھی تھے اور عاشق بھی۔ شاگردوں میں شاہ صاحب کہلاتے تھے۔ انسانی تعلق کا بہت پاس تھا۔ حد درجہ شفیق، سادہ، قانع، متین، منکسر المزاج اور خوش طبع بزرگ تھے۔ روزانہ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر قبرستان جاتے، عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے۔ فارغ ہوتے تو شاگردوں کو منتظر پاتے۔ واپسی کا راستہ سبق سننے اور دینے میں کَٹ جاتا۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا، یہاں تک کہ اسکول کو چل پڑتے۔ شاگرد ساتھ لگے رہتے۔ دن بھر اسکول میں پڑھاتے۔ شام کو شاگردوں کو لیے ہوئے گھر آتے، پھر رات تک درس چلتا رہتا۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ خود وہ بھی استاد پر فدا تھے۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کارفرما نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر شاہ صاحب کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہیں۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے۔ کتاب کی لت پڑ جائے تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے۔ زندگی اور اس کے بیچ فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ زندگی کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں، خونِ گرم کا حصّہ نہیں بنتے۔ انھیں کھیل کود کا بھی شوق تھا۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے۔ حاضر جواب بھی بہت تھے۔ شیخ نْور محمد یہ سب دیکھتے مگر منع نہ کرتے۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہوجاتی ہے جو بے حد ضروری اور مفید ہے۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کشادگی اور بے ساختگی کے ساتھ گزرا۔ قدرت نے انھیں صوفی باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہوگئے، دونوں کا ہدف ایک ہوگیا۔ یہ جو اقبال کے یہاں حِس اور فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجمالاً محسوس کروایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلاً معلوم بھی ہوگئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغہ اور وظیفہ ملا۔ اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا، وہیں رہے، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کرلیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پورا برصغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا۔ خصوصاً اْردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا۔ اقبال کو یہی گرفت درکار تھی۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ جگت استاد تھے۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی رْوپ تھے، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا۔ اقبال نے ہائر سیکنڈری کے امتحانات میں ٹاپ کیا اور بی اے کے مشہور گورنمنٹ کالج، لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکالرشپ حاصل کی۔ وہاں ہاسٹل میں رہنے کے لئے، اقبال نے ایک انگریزی کے استاد پروفیسر آرنلڈ سے ملاقات کی، جو اقبال کو بہت سی چیزیں سکھاتے تھےاور فلسفہ و ادب کے اپنے مطالعے میں رہنمائی کرتے تھے۔ اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے۔ ابتدائی کیریئر اس وقت، اقبال ایک نئے شاعر اور ادیب کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ وہ پرانے لاہور شہر ہیکرے کے علاقے بھاٹی گیٹ میں حکیم سید امین الدین کی حویلی میں مشاعرہ میں شرکت کے لئے جاتے تھے، انہوں نے بہت سے مشہور شعراء اور ادیبوں سے ملاقات کی اور اچھی نظمیں لکھنا شروع کیں جو بہت مشہور ہوئی۔ ان کی رہنمائی مرزا داغ، مرزا گرگانی، حکیم امین الدین، ​​حکیم شجاع الدین اور سر عبد القادر نے کی۔ ان کی پہلی مشہور نظم ” کوہ ہمالا” بھی مکزان میگزین میں چھپی تھی، جس کے مالک حکیم شجاع الدین تھے اور سرعبدالقادر نے ان کی نظم چھپوائی تھی۔ *تعلیم* 6 مئی 1893ء میں اقبال نے میٹرک کیا اور 1895ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آگئے۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے۔ اپنے لیے انگریزی، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کئے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت تک اورینٹیل کالج گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصّے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ 1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہیں پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رْخ متعین کر دیا۔ مارچ 1899ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ نومبر 1899ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں کھینچ لے گئے۔ بڑے بڑے سکّہ بند اساتذہ، شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے۔ سْننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے طور پر پْکارا گیا۔ غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے تو اچھے اچھے استاد اْچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ مشاعروں میں باصرار بْلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کردیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوگئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔ 1904ء کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا۔ دل کہتا تھا کہ اْڑ کر انگلستان پہنچ جائیں۔ اورینٹیل کالج میں اپنے چار سالہ دورِ تدریس میں اقبال نے اسٹبس کی ’’ارلی پلائجنٹس‘‘اور واکر کی ’’پولٹیکل اکانومی‘‘ کا اردو میں تلخیص و ترجمہ کیا، شیخ عبدالکریم الجیلی کے نظری توحیدِ مطلق پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب تصنیف کی جو 1904ء میں شائع ہوئی۔ اردو میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے۔ اورینٹل کالج میں بطور عربک ریڈر مدت ملازمت ختم ہوگئی تو 1903ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال کا گورنمنٹ کالج میں تقرر ہوگیا۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔ وہاں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ یکم اکتوبر 1905ء کو یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت لی۔ *اعلیٰ تعلیم اور سفر یورپ* 25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرینیٹی کالج میں داخلہ لے لیا چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ سر عبدالقادر بھی یہیں تھے۔ اسی زمانے میں کیمبرج کے استادوں میں وائٹ ہیڈ، میگ ٹیگرٹ، وارڈ، براؤن اور نکلسن ایسی نادر روزگار اور شہرہ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں۔ میگ ٹیگرٹ اور نکلسن کے ساتھ اقبال کا قریبی ربط تھا بلکہ نکلسن کے ساتھ تو برابر کی دوستی اور بے تکلفی پیدا ہوگئی۔ میگ ٹیگرٹ ٹرنٹی کالج میں کانٹ اور ہیگل کا فلسفہ پڑھاتے تھے۔ خود بھی انگلستان کے بڑے فلسفیوں میں گِنے جاتے تھے۔ براؤن اور نکلسن عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ آگے چل کر نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی "اسرار خودی" کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا مگر اس کی وجہ سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی سا تعارف ضرور ہوگیا۔ انگلستان سے آنے بعد بھی اقبال کی میگ ٹیگرٹ اور نکلسن سے خط و کتابت جاری رہی۔ آرنلڈ جو کیمبرج میں نہیں تھے، لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھاتے تھے، لیکن اقبال بڑی باقاعدگی سے ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ ہر معاملے میں ان کا مشورہ لے کر ہی کوئی قدم اْٹھاتے۔ انہی کے کہنے پر میونخ یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروائی۔ کیمبرج سے بی اے کرنے کے بعد جولائی 1907ء کو ہائیڈل برگ چلے گئے۔ تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں اس زبانی امتحان کی تیاری ہوجائے جو اسی زبان میں ہوتا تھا۔ یہاں چار ماہ گزارے۔ "ایران میں ما بعد الطبیعیات کا ارتقاء " کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پہلے ہی داخل کرچکے تھے، ایک زبانی امتحان کا مرحلہ ابھی رہتا تھا، اس سے بھی سرخروئی کے ساتھ گزر گئے۔ 4 نومبر 1907ء کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی۔ 1908ء میں یہ مقالہ پہلی بار لندن سے شائع ہوا۔ انتساب آرنلڈ کے نام تھا۔ ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی۔ کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہوگئے۔ جولائی 1908ء کو نتیجہ نکلا۔ کامیاب قرار دیے گئے۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رْکے، وطن واپس آگئے۔ لندن میں قیام کے دوران میں اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا، مثلاً اسلامی تصوّف، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر، اسلامی جمہوریت، اسلام اور عقلِ انسانی وغیرہ بدقسمتی سے ان میں ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونیورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ مئی 1908ء میں جب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سیّد امیر علی کمیٹی کے صدر چْنے گئے اور اقبال کو مجلسِ عاملہ کا رْکن نامزد کیا گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے شاعری ترک کردینے کی ٹھان لی تھی، مگر آرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبدالقادر کے کہنے پر یہ ارادہ چھوڑ دیا۔ فارسی میں شعر گوئی کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی۔ قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے۔ اقبال وطنی قومیّت اور وحدت الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے۔ اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہوگئے جسے نفرت کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدّن اور اس کی روح میں کارفرما مختلف تصوّرات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا۔ مغرب سے مرعوب تو خیر وہ کبھی نہیں رہے تھے، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد۔ بلکہ مغرب کے فکری، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آنکھیں چرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں امتِ مسلمہ کے گزشتہ عروج کی بازیافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھپا ہوا بودا پن منکشف ہوگیا۔ جولائی 1908ء میں وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ بمبئی سے ہوتے ہوئے 25 جولائی 1908ء کی رات دہلی پہنچے۔ *تدریس، وکالت اور سماجی خدمات* ابتداء میں آپ نے اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے۔ اگست 1908ء میں اقبال لاہور آگئے۔ ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی۔ اس پیشے میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری کی پیش کی گئی مگر اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معذرت کرلی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر 10 مئی 1910ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کردیا، لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔ ہوتے ہوتے مصروفیات بڑھتی چلی گئیں۔ کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہوگیا۔ 18 مارچ 1910ء کو حیدرآبار دکن کا سفر پیش آیا۔ وہاں اقبال کے قدیمی دوست مولانا گرامی پہلے سے موجود تھے۔ اس دورے میں سر اکبر حیدری اور مہاراجا کشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بناء پڑی۔ مارچ کی تئیسویں کو حیدرآباد سے واپس آئے۔ اورنگزیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے راستے میں اورنگ آباد اْتر گئے۔ دو دن وہاں ٹھہرے۔ 28 مارچ 1910ء کو لاہور پہنچے اور پھر سے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے۔ اب معلمی اور وکالت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ آخرکار 31 دسمبر 1910ء کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہوگئے، مگر کسی نہ کسی حیثیت سے کالج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برصغیر کی کئی دوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ پنجاب، علی گڑھ، الہ آباد، ناگ پور اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن رہے۔ ان کے علاوہ بیت العلوم حیدر آباد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے۔ بعض اوقات زبانی امتحان لینے کے لیے علی گڑھ، الہ آباد اور ناگ پوروغیرہ بھی جانا ہوتا۔ ممتحن کی حیثیت سے ایک اٹل اصول اپنا رکھا تھا عزیز سے عزیز دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا۔ 2 مارچ 1910ء کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نامزد کیے گئے۔ لالہ رام پرشاد، پروفیسر تاریخ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک کتاب "تاریخ ہند"مرتب کی جو 1913ء کو چھپ کر آئی۔ آگے چل کر مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے۔ 1919ء میں اورینٹیل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے۔ 1923ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے۔ اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہو کر تعلیمی کونسل سے استعفیٰ دے دیا تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجان مینارڈ نے انھیں جانے نہ دیا۔ اس طرف سے اتنا اصرار ہوا کہ مروتاً استعفیٰ واپس لے لیا۔ اس دوران میں پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب ’’آئینہ عجم‘‘مرتب کی جو 1927ء میں شائع ہوئی۔ غرض ، پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً 1932ء تک متعلق رہے۔ *علامہ اقبال اور سیاست* بیسویں صدی کے عشرہ اول میں پنجاب کی مسلم آبادی ایک ٹھہراؤ میں مبتلا تھی۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے۔ ان میں سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دوسرا سر فضل حسین بھی اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے، طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم کی جائے۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل۔ سر فضل حسین عملاً الگ تھلگ رہے۔ اقبال ان سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے خود کو غیر وابستہ ہی رکھا۔ 1911ء تک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین، سرسید کے حسب فرمان، انگریزی حکومت کی وفاداری کا دم بھرتے رہے، لیکن 1911ء اور 1912ء کے بیچ کے عرصے میں حالات جو ایک طرف چلے جارہے تھے، اچانک پلٹا کھا گئے۔ مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے تھے، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے۔ ان کی جانب سے تشدّد کی راہ اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے رکاوٹ ڈال دی۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کردیا گیا۔ اس جھٹکے نے مسلمان قائدین کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے گذشتہ اندازِ فکری کی غلطی ان پر واضح ہوگئی۔ انھیں اب آکر احساس ہوا کہ اپنی قومی اور سیاسی زندگی کے تحفظ کے لیے صرف سرکار کی وفاداری پر کمر بستہ رہنا یا انگریزوں کے بنائے ہوئے آئینی ذرائع اختیار کیے رکھنا ناکافی اور بے معنی ہے۔ بقول مولانا شبلی نعمانی تقسیم بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر ایک ایسا تھپّڑ مارنے کے مترادف تھی، جس نے ان کے منہ کا رْخ پھیر کر رکھ دیا۔ تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری، 1912ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر اْٹھے اور فرمایا: ’’مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے۔ عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا، اور خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔! ‘‘ اس تقریر سے مجمع میں رواں دواں لمحاتی اور بے جہت جوش و خروش اپنی قوم کے زندہ تشخص کے لیے درکار ایک بامعنی قوت میں بدل گیا جو ابھی محدود تھی مگر آگے چل کر اسے وسعت پکڑنی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کے چند حلقوں میں بیداری کے آثار پیدا ہوچلے تھے، مگر اس بیداری کے مراکز ایک دوسرے سے لاتعلق چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح بٹے ہوئے تھے۔ متفقہ ملّی قیادت میسر نہیں تھی۔ نتیجتہً مسلمانوں کے اندر متحدہ ہندی قومیت کا رجحان پیدا ہوچلا تھا۔ مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے تھے۔ ابھی اقبال عملی سیاست سے الگ تھے مگر مسلم قومیت کے اس اصول پر پوری طاقت کے ساتھ قائم تھے جو ان پر قیامِ انگلستان کے زمانے میں منکشف ہوا تھا۔ یورپ سے واپسی کے بعد 1914ء تک کا زمانہ اقبال کی بنیادی فکر کی تشکیل و تکمیل کا زمانہ ہے۔ یورپ میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ اس کے اثرات ہندوستان میں بھی نمایاں ہوئے۔ انگریزی حکومت کا رویہّ سخت سے سخت تر ہوتا گیا جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہا۔ انگریزی حکومت کے خلاف تحریکوں نے زور پکڑ لیا تھا۔ 13 اپریل، 1919ء کو امرتسر شہر کے جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا۔ رْسوائے زمانہ جنرل ڈائر نے لوگوں کو گھیرے میں لے کر اندھا دھند فائرنگ کروائی اور سینکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ گو کہ اقبال نے اس زمانے میں خانہ نشینی اختیار کر رکھی تھی لیکن اس حادثے کی دھمک ان کے دل تک بھی پہنچی۔ انھوں نے مرنے والوں کی یاد میں یہ اشعار کہے: ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ پاک غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس نہال سے ’’میں آپ کو اس اعزاز کی اطلاع خود دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فرو تر ہیں۔ سینکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے۔ سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی‘‘۔ 30 مارچ 1923ء کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف نظم ’’طلوع اسلام‘‘ پڑھی۔ یہ نظم یونانیوں پر ترکوں کی فتح کے واقعے پر لکھی گئی تھی۔ نظم کیا ہے، مسلمانوں کے روشن مستقبل کا پیغام ہے دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی خلافت کانفرنس نے برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات ابھار کر انھیں اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ مسلم لیگ کا وجود آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ 1924 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی لگاتار کوششوں سے اس کا احیاء ہوا۔ ادھر پنجاب میں بھی مسلم سیاست بحران کا شکار تھی۔ مسلمانوں کے اندر شہری اور دیہاتی جھگڑا کھڑا ہوگیا تھا، جس نے یونینسٹ پارٹی کو جنم دیا۔ 1923ء کے صوبائی انتخابات کے موقع پر اقبال سے اصرار کیا گیا کہ لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑیں مگر انھوں نے انکار کردیا کیونکہ ان کے قریبی دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر اسی حلقے سے اپنی امیدواری کا اعلان کرچکے تھے جو اقبال کے لیے تجویز کیا جا رہا تھا۔ اقبال حسبِ معمول وکالت میں مصروف تھے کہ 1926ء آ گیا۔ اس سال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے دوبارہ انتخابات ہونے تھے۔ دوستوں نے پھر زور ڈالا۔ اس مرتبہ میاں عبدالعزیز نے بھی کہہ دیا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی مدد کریں گے۔ اس بار اقبال مان گئے۔ امیدواری کا باقاعدہ اعلان چھاپ دیا گیا۔ الیکشن ہوئے، ظاہر ہے کہ اقبال ہی کو کامیاب ہونا تھا۔ کونسل کے اندر یونینسٹ پارٹی اکثریت میں تھی۔ اس کی قوّت کو مسلمانوں کے قومی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اقبال یونینسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے مگر جب اس جماعت کی ناقابلِ اصلاح خرابیاں مشاہدے میں آئیں تو اقبال نے علیحدگی اختیار کرلی۔ باقی مدت ایک تنہا رْکن کی حیثیت سے گزار دی۔ اسی سال پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری بنائے گئے جس سے برّصغیر کی مسلم سیاست کا دروازہ ان پر کھل گیا۔ اب اقبال عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاستوں کی تشکیل و قیام میں کئی عناصر کار فرما ہوتے ہیں ۔کہیں پر مشترک زبان کی وجہ سے ریاست تشکیل پا رہی ہوتی ہے اور کہیں پر مشترک رسم ورواج اور مشترک نسل کار فرما ہوتی ہے۔ اسی طرح کہیں پر معاشی مفاد لوگوں کو اکٹھا ہونے پر مجبور کرتے ہیں اور کہیں جغرافیائی عوامل ریاست کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا۔ پاکستان کی تشکیل میں بھی کسی نہ کسی عنصر کا ہونا ضروری ہے۔لیکن اس کی تعمیر و تشکیل میں ایسا کوئی بھی روایتی عنصر موجود نہیں ہے جو عموماً ایک ریاست کی تشکیل کے لیے ہمیشہ سے وجہ بنتا آیا ہو۔ اگر پاکستان کے قیام پر نظر ڈالی جائے تو اُس وقت نہ پاکستان کے رہنے والوں کی زبان مشترک تھی، اور نہ آج ہے جس کی وجہ سے اس ملک کی کروڑوں عوام متحد ہوتی اور مشترک زبان کی وجہ سے الگ وطن کا مطالبہ کرتی۔ آج بھی پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی کثرت اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان یکساں زبان کی بدولت وجود میں نہیں آیا ہے۔ نسلی اعتبار سے اس ملک کی عوام کا جائزہ لیا جائے تو اس ملک میں مختلف نسلوں کے لوگ مشترک رہتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ہماری مشرقی سرحد سوائے ایک لکیر سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ سرحد کے اِس پار بولی جانے والی زبان اور سرحد کے اُس پار بولی جانے والی زبان میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ اور نہ اُن کے رہن سہن میں کوئی فرق ہے۔ معاشی مفاد کا جائزہ لیا جائے تو اس ملک کے تمام حصوں کی ضروریات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ ایک حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے تودوسرا حصہ کان کنی سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی تشکیل میں روایتی عناصر کام نہیں آئے بلکہ پاکستان صرف اور صرف اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ اور اس کی بقا بھی اسی نظام کے تحت ممکن ہے۔ یوں تو پاکستان کی بنیاد اس وقت پڑ چکی تھی جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر لیا تھا اور ملتان تک کا علاقہ اسلامی مملکت میں شامل کر لیا تھا۔ بعد کے کچھ سال مسلم حکمرانوں کے عروج وزوال کے ساتھ چلتے رہے لیکن جب 1857کی جنگ آزادی کے بعد انگریز برصغیر پر قابض ہو گئے چونکہ انہوں نے مسلمانوں سے حکومت لی تھی اس لیے مسلم قوم ان کے زیر عتاب رہی۔ اور مسلم قوم کو دبانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اس لیے کچھ لوگ یہ یقین کر چکے تھے کہ اگر کہیں امان و حفاظت ہے تو صرف و صرف انگریز کو حکمران تسلیم کر لینے میں ہی ہے۔ جبکہ کچھ لوگ یہ سوچتے تھے کہ عافیت اگر ہے تو ہندو اکثریت کے ساتھ مفاہمت کر لینے میں ہے۔ جس کی نمائندگی انڈین نیشنل گانگریس کرتی تھی۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی تھے مگر وہ تعداد میں بہت کم تھے، جو ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے ایک قوم کی حیثیت سے مسلمانوں کی انفرادیت کے قائل تھے۔ ایسی صورت حال میں علامہ اقبال کی فکر ایسے طبقہ کے لیے امید کی کرن ثابت ہوئی۔ علامہ اقبال کے الہ آباد کے خطبے کی تاریخی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے جس میں انہوں نے ہند میں ایک مسلم ہند قائم کرنے کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کروائی۔ ان کے نزدیک برصغیر صرف ہندو کا براعظم نہیں ہے بلکہ یہاں پر مختلف نسلوں کے لوگ رہتے تھے ہیں اور مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سب کا مشترکہ نسل پر اطلاق کرنا درست نہیں ہے۔ خطبہ الہ آباد 29 دسمبر 1930 میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ یہ خطبہ جس میں آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر بدلنے کا بیغام دیا “خطبہ الہ آباد ” کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں وہ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں :”میں چاہوں گا کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ضم کر کے ایک واحد ریاست بنا دی جائے اور اسے خود مختاری دے دی جائے۔ برطانوی سلطنت کے اندر یا برطانوی سلطنت کے باہر شمال مغربی ہند مسلمانوں کی ایک مستحکم ریاست کا قیام مسلمانوں کی حتمی تقدیر نظر آتی ہے” خطبہ الہ آباد 1930میں ہندوستان میں علیحدہ مسلم ہند کے قیام کے مطالبے کے بعد علامہ محمد اقبال نے اسلامی قانون کی تشکیل کے لیے مستقل ادارے قائم کرنے کی کوششیں تیز کردی۔ اقبال کی نظر میں قانون سازی بہت اہمیت کی حامل ہے ان کی نظر میں ایک وکیل کے لیے ضروری ہے کہ اس نے روایتی اسلامی فقہ کا مطالعہ جدید قانون کی روشنی میں کر رکھا ہو۔ یہ نظریہ انہوں نے اس لیے دیا کہ چونکہ موجودہ اسمبلیوں کے منتخب اراکین اسلامی فقہ کو نہیں سمجھتے ہیں، اس لیے انہوں نے یہ تجویز دی کہ ایک علماء کی مجلس قائم کی جائے جس کو قانونی طور پر تسلیم کیا جائے جس کا کام کسی قانونی مسودہ کو منظوری سے پہلے نظر ثانی کر نا ہو۔ یہ بات آل انڈیا مسلم لیگ کانفرس کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت منعقدہ لاہور 21 مارچ 1932 میں انہوں نے مسلمانوں کے آئندہ پروگرام کے بارے میں تجاویز دیتے ہوئے کہا۔ “پنجم: میں تجویز کرتا ہوں کہ علماء کی ایک مجلس قائم کی جائے جس میں وہ مسلم وکلاء شامل ہوں جنہوں نے جدید فقہ کی تعلیم حاصل کی ہے مقصد یہ ہے کہ جدید حالات کی روشنی میں اسلامی قانون کی حفاظت، اس کی توسیع اور اگر ضروری ہو تو نئی تاویل کا اہتمام کیا جائے۔ یہ کام اسلام کے بنیادی اصولوں کی روح کے نزدیک رہتے ہوئے کیا جائے۔ اس مجلس کو آئینی اعتبارسے تسلیم کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے پرنسپل لاء پر اثر انداز ہونے والا کوئی مسودہ قانون قانون سازی کے مراحل سے اس وقت تک نہ گزر سکے جب تک کہ اسے اس مجلس کی منظوری حاصل نہ ہو جائے۔ مسلمانان ہند کے لیے اس تجویز کی خالصتاً عملی قدر و قیمت سے قطع نظر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جدید دنیا مسلم اور غیر مسلم دونوں کو اسلام کے قانونی ادب کی لامحدود قدر وقیمت کا اندازہ لگانا ہے اور سرمایہ دارانہ دنیا کے لیے اس کی اہمیت کا بھی، جس کے اخلاقی معیار آدمی کے اقتصادی رویئے کے قابو سے باہر ہو گئے ہیں۔ اس نوع کی مجلس سے جیسا کہ میں نے تجویز کی ہے، مجھے یقین ہے کم سے کم اس ملک میں اسلام کے معمول کے اصولوں کی گہری سوجھ بوجھ پیدا ہو گی” تحریک پاکستان کی جدوجہد سے لے کر قیام پاکستان تک کے دورانیے کا اگرجائزہ لیا جائے تو علامہ محمد اقبال کی فکری کاوشیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خصوصی طور پر علامہ محمد اقبال کا خطبہ الہ آباد جو سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے جس نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کا تصور دیا۔ یہی دو قومی نظریہ ہے جس نے مسلمانوں کو ایک الگ وطن حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ اس لیے علامہ اقبال کو مصور پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے سب پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے کہ ہم ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمارے لئے الگ وطن کا خواب دیکھا۔ علامہ اقبال کے دو قومی نظریہ پر پختگی میں سفر یورپ کے علاوہ سفر افغانستان کا بھی بہت اثر ہے۔ جہاں آپ کی ملاقاتیں افغان علماءکرام خصوصا ضیاء المشائخ شور ملا آف کابل مولانا فضل الرحمن مجددی علیہ رحمہ، عظیم مجاہد ترنگزئی باباجی و دیگر علماء و مشائخ سے ملاقات کا شرف ملا۔ افغان علماءکرام کی انگریز کے مقابل استقامت و غیرت دینی نے آپ کو بہت متاثر کیا۔ جس کا اظہار جا بجا آپ نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔ لیکن افغان علماءکرام خصوصا ضیاء المشائخ مولانا فضل الرحمن مجددی علیہ رحمہ نے آپ کو مسلم اکثریتی 4 صوبوں کی خود مختاری و آزادی کے لیے جدوجہد پر ابھرا۔ اس تازہ فکر نے آپ کے دل و جاں میں راسخ دو قومی نظریہ کو تقویت دی اور آپ نے پاکستان بنانے کی مہم پر توجہ مرکوز کی اور مسلمانان ہند اور ان کے زعماء کے اندر اپنے افکار، اشعار، خطبات و مکتوبات سے اسلامی قومی تشخص کی نئی روح پھونک دی۔ خصوصا آپ نے مسٹر جناح سے خط و کتابت کے ذریعے تعلق و ربط بحال کیا اور ان کو ابھارا کے وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو مسلمانان ہند کے لیے علیحدہ وطن کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ مسٹر جناح جو پہلے ہی ہندو مسلم اتحاد اور متحدہ ہندوستان کی فکر کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ آپ کی تربیت سے ان کی فکر نے نئی مہمیز پائی۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی فکر اور رہنمائی قیام پاکستان کی اساس ہے جس کا اعتراف بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے بھی کیا۔ مگر نسل نو کو کبھی بھی ایک مربوط اور منظم انداز سے فکر اقبال سے روشناس کروانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ آج ہمیں جن طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے، یہ تقاضا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے کہ ہم اقبال کا تذکرہ صرف رسمی حد تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ فکر اقبال کو اپنے قومی نظام تعلیم و تربیت کا حصہ بنائیں۔ اس کا آغاز کہاں سے ہو؟ اس کے لیے ہمیں علامہ کی کم از کم وہ تحریریں جو ان کی فکر کی نمائیندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے حالات سے بھی متعلق ہیں وہ ناگزیر طور پر ہمارے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں۔ ان میں تین تحریریں نمایاں ہیں :'خطبہ الہ آباد'، 'ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر'، اور 'اسلام اور قومیت'۔ خطبہ الہ آباد کو ہماری تحریک آزادی میں میگنا کارٹا کی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ وہ دستاویز ہے جس نے ہندوستان میں ایک آزاد اور الگ مسلم مملکت کے قیام کی نظریاتی، دستوری اور عملی بنیادیں فراہم کیں۔ علامہ پہلے مفکر ہیں جنہوں نے دور جدید میں مسلم تہذیب کی تقدیر کو ایک آزاد اور الگ مسلم ریاست کے قیام سے منسلک کرتے ہوئے قرار دیا کہ اسلام خود ایک تقدیر ہے اور اسے کسی دوسرے تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام ایک وحدت ہے۔ اسلام کا معاشرتی ڈھانچہ اس کے اخلاقی نصب العین اور اسلامی قانون کے تحت وجود میں آتا ہے۔ علامہ نے اس خطبے میں ہندوستان کی سیاسی کشمکش کو نظری مسئلے کی بجائے ایک زندہ اور عملی مسئلہ قرار دیا جس سے اسلام کے دستور حیات اور نظام عمل کے تار و پود متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں علامہ نے فرمایا کہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک آزاد مسلمان مملکت کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر ہے۔ اگر ہم ماضی کی تاریخ کو دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ خطبہ الہ آباد مسلم تہذیب، مسلم سیاست اور بحیثیت ملت اس کے سیاسی مستقبل کی تفہیم کی ایسی دستاویز ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اپنی اس بصیرت کی بنیاد پر اقبال نے اسلام کو مسلمانوں کی بقا کی اساس قرار دیا نہ کہ اس کے برعکس۔ علامہ کی دوسری تحریر ’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ‘ہے۔ اس تحریر کی اہمیت موجودہ حالات میں اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دینے کی ضرورت ہے کہ قوم کیا ہوتی ہے اور کس طرح وجود میں آتی ہے۔ اور پاکستانی قوم بطور قوم کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ اور خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں پاکستانی قوم کی تعریف کیا ہوگی؟ اس مضمون میں علامہ فرماتے ہیں کہ مسلم قوم کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان امور کو زیر غور لایا جائے: مسلم قوم کی ہیئت ترکیبی، اسلامی تمدن کی یک رنگی اور مسلمانوں کی اس سیرت کا نمونہ جو مسلمانوں کے قومی وجود کے تسلسل کے لیے لازمی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک زبان ہے، نہ اشتراک وطن اور نہ اشتراک اغراض اقتصادی۔ بلکہ ہم سب اس برادری کا حصہ ہیں جو جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی۔ قومیت کے جدید تصور نے بین الاقوامی سطح پر قوموں میں غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ اس سے پولیٹیکل سازشوں اور منصوبہ بازیوں کا بازار گرم ہوا ہے جبکہ اسلام دنیا میں اس طرح کے ہر شرک جلی و خفی کے خاتمے کے لیے آیا۔ اس تحریر میں علامہ نے اسلامی تمدن کی یک رنگی اور یکسانیت کو زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کے کارناموں کے ساتھ واضح کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ایسا اجتماعی کردار تشکیل دینا ہے جو ہمارے قومی وجود کے تسلسل کا باعث ہو۔ ہماری قومی سرگرمیوں کی محرک اقتصادی اغراض نہیں ہونی چاہئیں بلکہ قوم کی وحدت کی بقا اور اس کی زندگی کا تسلسل قومی آرزﺅں کا ایک ایسا نصب العین ہے جو فوری اغراض کی تکمیل کے مقابلے میں زیادہ اشرف و اعلی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ہماری قوم کا شیرازہ اسی وقت تک بندھا رہ سکتا ہے جب تک کہ ہم مذہب اسلام اور تہذیب اسلام کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ہم اچھے کاریگر، اچھے تاجر اور اچھے صنعتکار اور اچھے شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ انہیں پہلے پکا مسلمان بنائیں۔ علامہ کی تیسری اہم تحریر ’اسلام اور قومیت ‘ہے۔ قومی سطح پر خلفشارکے موجودہ ماحول میں اس تحریر کی وہی اہمیت ہے جو ایک بیمار مریض کے لیے دوا کی ہے۔ اس تحریر میں علامہ نے اسلام کے بنیادی سرچشموں کی روشنی میں مسلمان قوم کے اجتماعی وجود کے تعین کا حق ادا کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسلمان قوم کو محدود ارضی وابستگی سے اپنی شناخت طلب نہیں کرنی چاہیے۔ وطن انسانی ہیئت اجتماعی کا ایک اصول ہے اور اس اعتبار سے جدید سیاسی تصور ہے مگر اسلام جو خود ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا قانون ہے، وطن بطور جدید سیاسی تصور کے اس سے متصادم ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ مسلمان قوم ایک وحدت ہے۔ اور یہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں کہ یہ دینی و شرعی لحاظ سے تو قوانین الہی کی پابند ہو مگر ملکی اور وطنی لحاظ سے کسی ایسے دستور عمل کی پابند ہو جو ملی دستوری اصول سے مختلف بھی ہو۔ بلکہ مسلمان قوم تو ایک ایسی ملت ہے جس میں قبیلہ، رنگ و نسل، زبان، وطن اور اس طرح کے ہزارہا پہلوﺅں سے بالاتر ہو کر تمام افراد و گروہ یکجان و یک وجود ہوگئے ہیں۔ گویا ملت یا امت اقوام کی جاذب ہے اور خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ تصور ہے جو اس دعا سے بھی نمایاں ہوتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کی تکمیل پر کی تھی۔ اس تحریر میں علامہ ایک بنیادی نکتے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر اس طرح کی شناختوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انحصار کر کے قوم کی تشکیل کرتے تو یہ راہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نہ ہوتی۔ کیونکہ نبوت محمدیہ کی غایت اور مقصود ہی یہ ہے کہ ایسی قوم تشکیل کی جائے کہ جو قانون الہی کی پابند ہو اور زمان، مکاں، وطن، نسل، نسب، زباں، جیسی محدود وابستگیوں سے بالا تر ہو۔ اگر یہی اعلی منزل تاریخی عمل کے ذریعے حاصل کرنا ہوتی تو اس کے لیے خدا جانے کتنی صدیاں درکار ہوتیں مگر آپ نے یہ کام صرف تیرہ برسوں میں مکمل کر دیا۔ اس تحریر میں علامہ نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کی جدوجہد کا بھی یہی مقصد قرار دیا۔ فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آزادی کے لیے جدوجہد سے اگر ہندوستان مکمل طور پر نہیں تو اس کا کوئی حصہ ہی ان اعلی انسانی اقدار کا مظہر بن جائے جو اسلام نے عطا کی ہیں۔اگر آزادی ہند کا یہ نتیجہ ہونا ہے کہ جیسا اس کا حال اب ہے ویسا بعد میں بھی ہو یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی آزادی کے لیے لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں رکھنا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ قوم کا جو تصور بانیان پاکستان کے پیش نظر تھا اور جس کی وضاحت علامہ کی مذکورہ بالا تحریروں میں موجود ہے، آج ہم اس سے کتنا دور ہو چکے ہیں ۔سبب وہی کہ ہم نے نہ اس تصور کی اہمیت محسوس کی نہ اسے قومی نظام تعلیم و تربیت میں شامل کرکے نسل نو کے شعور کا حصہ بنایا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس کوتاہی کا ازالہ کریں اور ان خطرات کے سامنے بند باندھیں جو مسلسل ہمارے قومی وجود کا شیرازہ بکھیررہے ہیں۔ اس وقت جب کہ وزیر اعظم پاکستان نے بھی اپنے ایک بیان میں قومی تعلیمی نصاب کی تشکیل نو اور اسے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی ہے ہمیں اقبال کی مذکورہ بالا تین تحریریں ہمیں سوئے منزل گامزن کر سکتی ہیں۔ *اقبال اور خودی (واصف علی واصف کی تقریر سے ماخوذ)* پیر رومی کی قیادت میں عشقِ مصطفیٰﷺ کی عظیم دولت سے مالا مال ہو کر اقبالؒ جب عرفانِ ذات کے سفر پر روانہ ہوا تو اُس پر وسیع و جمیل کائنات کے راز کچھ اس طرح منکشف ہونا شروع ہوئے’جیسے عجائبات کا دبستاں کھل گیا ہو۔ اُس کا ذوقِ جمال اُسے سرُور و وجدان کی منزلیں طے کراتا ہوا بارگاہِ حُسنِ مطلق تک لے آیا۔ کائنات اُسے مرقعِ جمال نظر آئی۔ اُس نے دیکھا ‘غور سے دیکھا اور دیکھ کر محسوس کیا کہ موتی، قطرہ، شبنم، آنسو، ستارے’ سب ایک ہی جلوے کے رُوپ ہیں۔ اُسے قطرہ، دریا، بادل، جھیلیں، سمندر ایک ہی وحدت میں نظر آئے۔اُسے ذرّے میں صحرا اور قطرے میں دریا نظر آیا۔ اُس نے فرد اور معاشرے کی وحدت دیکھی’ بِھیڑ میں تنہائی دیکھی اور تنہائی میں ہجوم نظر آیا۔ اقبالؒ کو یہ کائنات ایک عظیم دھڑکتے ہوئے دل کی طرح محسوس ہوئی۔ اُس کے اپنے دل کی دھڑکن ‘کائنات کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو گئی۔ اُس نے جلوۂ جاناں کو ہر رنگ میں آشکار دیکھا۔ اقبالؒ کو عشق نے اُس مقام تک پہنچا دیا ‘جہاں انسان کو غیر از جمالِ یار کچھ نظر نہیں آتا۔ اُس مقام پر انسان کہہ اٹھتاہے: ؎اب نہ کہیں نگاہ ہے ‘اب نہ کوئی نگاہ میں محو کھڑا ہوا ہوں میں’ حُسن کی جلوہ گاہ میں اس منزلِ دیدارِ حُسن پر پہنچ کر انسان یہ بیان نہیں کر سکتا کہ یہ کیا مقام ہے؟ صاحبِ منزل خود آئینہ ہوتا ہے’خود رُوبرو’خود نظر اور خود ہی محوِ نظارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن اقبالؒ اس مقام پر ٹھہرا نہیں۔اُس نے جلوۂ حُسنِ کائنات سے معنیٔ کائنات کی طرف قدم بڑھایا۔ اُسے حُسنِ فطرت نے ایک عظیم پیام عطا کیا۔ اقبالؒ نے غور کیا کہ یہ کائنات کیا ہے’انسان کیا ہے’حُسن کیا ہے’عشق کیا ہے’زندگی کیا ہے’موت کیا ہے’مابعد موت کیا ہے’عمل کا مفہوم کیا ہے’عقل کیا چیز ہے’حیرت کیا ہے اور جلوہ کیا ہے’رموز کیا ہیں’ظاہر کیا ہے’باطن کیا ہے’سوز و مستی کیا ہے’سرُورِ جاوداں کیا ہے’رحیلِ کارواں کیا ہے”لا” کیا ہے”’اِلٰہ” کیا ہے’غرضیکہ یہ سب کچھ کیا ہے’کیوں ہے’کب سے ہے’کب تک ہے۔ نور و ظلمات کیا ہیں۔ غیاب و حضور کیا ہیں؟اسی تلاش و تجسس کے دوران اقبالؒ کو اپنے فکر کی عمیق گہرائیوں میں آخر ایک روشن نقطہ دکھائی دیا۔ اور اس نقطے نے نُکتہ کھول دیا’ عقدہ کشائی کر دی’اقبالؒ کو اشیا ء و اعمال کی پہچان عطا ہوئی۔ یہ نقطہ اُسے حقیقت آشنا کر گیا۔ اُسے کائنات کی علامتیں نظر آئیں، شاہیں کا مفہوم سمجھ آیا، کرگس کے معنی سمجھ آئے’ صحبتِ زاغ کی خرابی سمجھ آئی۔ اِسی روشن نقطے نے اسے اشیاء کے باطن سے تعارف کرایا’ رموزِ مرگ و حیات عطا کئے۔اُس نے گردشِ شام و سحر کا مقصد اِسی نقطے کی روشنی میں دریافت کیا۔ یہ نقطہ پھیلتا تو کائنات بن جاتا اور سمٹتا تو آنکھ کا تِل بلکہ اقبالؒ کا دل بن جاتا۔ اسی روشن نقطے کو اقبال ؒ نے خودی کہا ہے۔ ؎نقطۂ نوری کہ نام او خودی است زیرِ خاک ما شرارِ زندگی است چونکہ یہ روشن نقطہ ہر چیز بھی ہے، ہر شے سے الگ بھی ہے’ اس لئے اس کی تعریف مشکل ہے۔ خودی کیا ہے’ ہر شے کی اصل ہے۔ یہ Identity ہے یعنی اس شے کی بنیادی فطری قدر’ جس سے اس شے کا قیام ممکن ہے اور جس کے بغیر وہ شے قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ انفرادیت ہے جو اس شے کو دوسری اشیاء سے علیحدہ کرتی ہے، ممتاز کرتی ہے، Discriminate کرتی ہے۔ یہ وہ تشخص ہے جس سے اس ذات کی بقا ممکن ہے۔ یہی وہ راز ہے جو کسی شے کے زندہ رہنے کا واحد جواز ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو وہ بھی نہیں۔ درحقیقت خودی ہر قابلِ ذکر وجود کے باطن کی نورانی کلید ہے۔خودی جذبۂ اظہارِ حُسنِ باطن ہے۔ ؎وجود کیا ہے فقط جوہرِ نمودِ خودی کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا خودی جوہرِ ذاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو کسی ذات کے ہونے اور نہ ہونے کا فرق مٹ جائے۔ خودی ہر وجود میں موجود ہے اور اس کا اپنا علیحدہ وجود نہیں۔ زندگی کی طرح جو’ ہر ذی جان میں ہے اور خود میں نہیں۔حُسن کی طرح جو’ ہر حسین میں ہے اور اُس کا اپنا الگ ٹھوس، قابلِ محسوس وجود نہیں۔ اس لئے خودی کو ایک علیحدہ مضمون کے طور پر سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ خودی کے بیان میں Paradox کا ہونا فطری ہے اور خودی کا Paradox یا تضاد’ تضاد نہیں۔ کیونکہ خودی فرد بھی ہے اور معاشرہ بھی’ خودی تلوار بھی ہے اور تلوار کی دھار بھی’ خودی مستی ٔ لا یحزنون بھی اور سوزِ دروں بھی’ خودی ضبطِ نفس کا سرمایہ بھی ہے اور اطاعت کی عظیم دولت بھی’ خودی تقدیر بھی ہے اور کاتبِ تقدیر بھی’ خودی نیابت ِ الہٰی کا مقام بھی ہے اور اپنی انفرادیت بھی’ یہ جلوت بھی اور خلوت بھی’ خودی موجِ آبِ رواں بھی اور ضبطِ فغاں بھی’ خودی قریبِ رگِ جاں بھی ہے اور دُوریٔ شبِ ہجراں بھی، خودی راز بھی ہے اور محرمِ راز بھی’ ناز بھی ہے نیاز بھی بلکہ بے نیاز بھی۔ اقبالؒ نے خودی کو اتنی وسعت عطا کر دی ہے کہ اس کو کسی ایک حوالے سے سمجھنا مشکل ہے۔ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایسے کیا جا رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اقبالؒ بہر حال اقبالؒ ہے۔ وہ فقیر ہے، عارفِ حق ہے، مفکرِ فِکرصالح ہے، ملّتِ اسلامیہ کا ایک غیور فرزند، پیرِ رومیؒ کا مریدِ با وقار ہے۔ فلسفۂ شرق وغرب سے آشنا ہونے والا اقبالؒ خودی کے تصور سے جو پیغام دے رہا ہے وہ ایک عظیم پیغام ہے۔ اقبالؒ خودی کے بحرِ بے پایاں سے افکار کے گوہرِ تابدار نکالتا ہے اور قاری کے دل و دماغ کو دولتِ لا زوال سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اقبالؒ کی خودی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان صاحبِ ادراک ہو،صاحبِ نظر ہو۔ اقبالؒ نے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ نظر نہ ہو تو مرے حلقۂ سُخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال ِ تیغ ِاصیل اقبالؒ کا تصورِ خودی عارفوں کے لئے ہے، اہلِ نظر کے لئے ہے، شب بیداروں کے لئے ہے، آہِ سحر گاہی سے آشنا روحوں کے لئے ہے، دل والوں کے لئے ہے، عشق والوں کے لئے ہے۔ یہ وہ علم ہے جو اہلِ علم کے لئے نہیں بلکہ اہلِ نظر کے لئے ہے۔ اقبالؒ کہتا ہے کہ ؎ اقبالؒ یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات خودی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ان عنوانات کو دیکھیں جن کے ماتحت اقبالؒ نے خودی کو بیان کیا۔ مثلاً کائنات کی خودی …اسلام کی خودی…ملّتِ اسلامیہ کی خودی … عشق و عزم کی خودی…عمل کی خودی…فقر کی خودی…آزادی و حریت کی خودی، رفتار ِ زمانہ کی خودی اور سب سے اہم خودی ’خود آگہی کی خودی۔ وقت اجازت نہیں دیتا کہ ہم ان عنوانات کا خودی کے حوالے سے مکمل جائزہ لیں’ بہر حال ایک طائرانہ نظر ہی سہی۔ کائنات خودی کی عظیم جلوہ گاہ ہے۔ اس کی بیداری اور پائیداری خودی کے دم سے ہے۔ ؎ خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے بیداریٔ کائنات یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار آسماں میں راہ کرتی ہے خودی صید مہر و ماہ کرتی ہے خودی اقبالؒ کا مقصد یہ ہے کہ خودی کائنات کے جلووں میں جلوہ گر ہے۔جو انسان کائنات کے جلووں سے لطف اندوز نہیں ہوتا وہ ان جلووں میں خودی کی کارفرمانی کیسے دیکھ سکتا ہے؟ اقبال کہتا ہے کہ ؎ خودی جلوۂ سرمست خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند اَزل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے یہ کائنات ہے جو عرصہ سے آ رہی ہے اور شاید عرصہ دراز رہے گی۔ اس کی خودی گردش و استحکام میں ہے۔ اب آئیے اسلام کے آئینے میں خودی کی جلوہ گری دیکھیں۔ اقبالؒ کے نزدیک اسلام ہی محافظِ خودی ہے اور خودی محافظِ مسلماں ہے۔ اقبالؒ اسلام کو بقائے عالم کا ذریعہ سمجھتا ہے ؎یہ ذکرِ نیم شبی یہ مراقبے یہ سرُور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں اقبال بآوازِ بلند کہتا ہے کہ ؎خودی کا سِرِ نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ ؎خودی سے اِس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا ؎حکیمی نا مسلمانی خودی کی کلیمی رمز پنہانی خودی کی اقبالؒ خودی کو غلامی سے نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ خودی کے دم سے مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ حاصل ہو سکتی ہے۔ اقبالؒ کے ہاں خودی King Maker بلکہ Kingdom Maker ہے۔ ؎ تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں غریبی میں نگہبانی خودی کی ؎یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی ؎خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی نہیں ہے سنجرو طغرل سے کم شکوہ فقیر آئیے اب سب سے آخری لیکن سب سے اہم عنوان’ خودی اور خود آگہی کی طرف۔ اقبالؒ اپنے قاری کو دعوتِ خود شناسی دیتا ہے۔ اس کا پیغام یہی ہے کہ ؎ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی اپنی پہچان سے ہی اللہ کی پہچان کی طرف قدم اٹھ سکتے ہیں۔ اقبالؒ خودی کو ہی پہچان کا ذریعہ مانتا ہے۔ اقبالؒ انسان کو پیغام دیتا ہے کہ وہ خود رازِ فطرت ہے۔ انسان ہی مقصد و مدعائے تخلیق ہے۔ انسان کو اپنا مقام پہچاننا چاہیے۔ انسان بالعموم اور مسلمان بالخصوص شاہکارِ فطرت اور اس کا تشخص خودی کے دم سے ہے جو رہی خودی تو شاہی ‘نہ رہی تو روسیاہی اسی طرح جو قوم محرومِ خودی ہو اس سے اقبالؒ یوں مخاطب ہے: ؎ اس کی تقدیر ہی محکومی و مظلومی ہے قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف اقبالؒ معاشی اور سیاسی غلامی میں گرے ہوئے انسان کو بلندیوں کی طرف پکارتا ہے۔ وہ اسے مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشن راہوں پر گامزن کرنا چاہتا ہے۔ ؎تو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا ؎تُو اپنی خودی کھو چکا ہے کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر ؎ غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تُو بھی ہے آستانہ مسلمانوں کو ان کی خودی سے آشنا کر کے اقبالؒ ان کو پیغام دیتا ہے کہ ؎ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخر زمانی ؎ خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ اقبالؒ کے ہاں خودی کی بلندی ہی مقصدِ حیات ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا ارادہ تقدیر بن جاتا ہے ؎خودی شہرِ مولا ‘ جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید ‘ آسماں اس کا صید اقبالؒ خودی کی نگہبانی کا درس دیتا ہے۔ خودداری کا پیغام دیتا ہے۔اقبالؒ کی خودی’ زندگی ہے، حیاتِ جاوداں ہے۔ یہ ملّتِ اسلامیہ کے لئے ایک عظیم ذریعۂ حصول ِ قوت ہے۔ خدا ہمیں خودی کے اس بلند مقام سے آگاہ فرمائے جہاں : خدا بندے سے خود پوچھے’بتا تیری رضا کیا ہے ۱؎ حضرت علامہ محمداقبالؒ اپنے ایک خط ‘ بنام مہاراجہ کشن پرشاد (۱۴ ۔ا پریل ۱۹۱۴ئ) لکھتے ہیں : ”یہ مثنوی جس کا نام ”’اسرارِ خودی” ہے ‘ ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی و بے خودی کی طرف ہے، مگر قسم ہے اس خدائے واحد کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان و مال و آبرو ہے’ میں نے یہ مثنوی اَز خود نہیں لکھی’ بلکہ مجھ کو اِس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے، اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کیلئے کیوں انتخاب کیا گیا۔ جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا ‘ میری روح کو چین نہ آئے گا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کا اصل مقصد ہی یہی ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی ‘ کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانے کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزاء و اسباب کو اپنے شکار ( خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنا دیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے تباہ وبرباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا ہے… یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبالؒ نے بویا ہے ‘ اُگے گا ‘ ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بارآور ہوگا۔ مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے ، الحمد للہ ” (بحوالہ ”مکاتیبِ ِ برنی”) *اقبال کا تصورِ فقر* فقر کے ظاہری اور لغوی معنی تو افلاس، محتاجی، تنگ دستی اورغربت کے ہیں مگر علامہ اقبال اس کے ظاہری معنوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں، یعنی: اِستغنا یا اسبابِ ظاہری سے بے نیازی۔ جہاں تک امتِ مسلمہ کا تعلق ہے، اِستغنا کا رویہ ہی امت اور افرادِ امت کو کامیابی اور سربلندی کی معراج تک پہنچا سکتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ع کہ پایا میں نے اِستغنا میں معراج مسلمانی (بال جبریل،ص۱۲۰؍۴۱۲) فقر کا یہ مفہوم علامہ اقبال نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات طیبہ سے اخذ کیا ہے۔ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی پوری زندگی فقیرانہ اسلوب کا نمونہ اور فقر کی عملی تفسیر ہے۔ متعدد روایات میں بتایا گیا ہے کہ اِدھر اُدھر سے جو تحائف، ہدایا، مال ومنال اور زروجواہر آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فی الفور تقسیم کر دیتے۔ اپنے لیے یاگھر والوں کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔ قریشِ مکہ نے پیش کش کی کہ ہم زروجواہر لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں ہمارے بتوں سے تعرض نہ کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیش کش کو پر کاہ کے برابربھی اہمیت نہ دی۔ دراصل اقبال کے تصورِ فقر کا مفہوم اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ علامہ کے نزدیک فقر ایسی ’متاعِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ہے جو اُمت مسلمہ کو وراثت میں عطا ہوئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو اس کا امانت دار اور نگران (care-taker) بنایا ہے۔ فرمایا ؂ فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست ما امینیم ، ایں متاعِ مصطفی ست (پس چہ بایدکرد، ص۲۰؍۸۱۶) چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجاز سے نسبت تھی، اس لیے علامہ متاع فقر کو’’حجازی فقر‘‘ کہتے ہیں : ؂ ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر جس فقر کی اصل ہے حجازی (ضربِ کلیم،ص۸۸؍۵۵۰) یہاں بھی اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے جن کا طریق فقر آج بھی ہر مسلمان کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔ علامہ اقبال اس فقر کی خصوصیات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: ؂ اس فقر سے آدمی میں پیدا اللہ کی شانِ بے نیازی یہ فقرِ غیور جس نے پایا بے تیغ و سناں ہے مرد غازی مومن کی اسی میں ہے امیری اللہ سے مانگ یہ فقیری (ضربِ کلیم،ص۸۹؍۵۵۱) علامہ اقبال نے ’فقر غیور‘ کی ترکیب’ غیر اسلامی فقر کے متضاد کے طور پر استعمال کی ہے۔ فقر غیور اور غیر اسلامی فقر دو ایسے مختلف اور متضاد رویے ہیں جو متوازی خطوط کی طرح کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ بال جبریل کی نظم ’فقر‘ میں دونوں اصنافِ فقر کا باہمی موازنہ کیا گیا ہے۔ ایک فقر، کم ہمتی، بزدلی اور پسپائی سکھاتا ہے۔ دوسری نوعیت کا فقر امامت وامارت کا راستہ دکھا کر فقیر کا رشتہ حضرت شبیر رضی اللہ عنہ سے جوڑتا ہے: ؂ اِک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری اِک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری اِک فقر ہے شبیری، اس فقر میں ہے میری میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبیری (بال جبریل،ص۱۶۰؍۴۵۲) سید نذیر نیازی کے نام ۲۱؍اکتوبر ۱۹۲۵ء کو لکھتے ہیں:’’اسلام کی حقیقت فقرِ غیور ہے اور بس‘‘ (مکتوباتِ اقبال،ص۳۰۳) ایک جگہ علامہ نے فقر غیور کو عین اسلام قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اسلام اور فقرِغیور پورے دین پر محیط ہے: ؂ لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور (ضربِ کلیم،ص۳۱؍۴۹۳) علامہ اقبال نے فارسی اور اردو شاعری میں قلندر، مردقلندر، درویش، بندۂ درویش اور مردِ کامل جیسے الفاظ وتراکیب کو فقرغیور کے معنوں میں اور فقیر کے متبادل اور مترادف کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں: ؂ قلندر جز دو حرفِ لَا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہاے حجازی کا (بال جبریل ،ص۴۴؍۳۶۸) گویا توحید، مردِ قلندر کا سرمایۂ حیات ہے اور یہی فقر کی کلید ہے ۔جب وہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کہتے ہوئے غیراللہ کی نفی کرتا ہے تو اس میں’اللہ کی شانِ بے نیازی کی پرت پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت علی ہجویری نے اس کی تائید اس طرح فرمائی ہے کہ :ذات خداوندی کے ماسوا تمام چیزوں سے دل کو فارغ رکھنے کا نام فقر ہے(کشف المحجوب،ص ۸۵)۔ حضرت نے ایک بزرگ ابوسعید علیہ رحمہ کا قول نقل کیا ہے کہ اصل فقیر وہ ہے جو اللہ کے ساتھ غنی ہو۔ (ایضاً،ص۸۷) یعنی اللہ اسے کافی ہو اور وہ خود کو اللہ کے سوا کسی کا’’بندہ'' نہ سمجھے، نہ وہ کسی سے ڈرے، نہ کسی سے دبے اور ’پیش فرعونے سرش افگندہ نیست‘ کے مصداق، نہ وہ کسی کے سامنے سر جھکائے ۔ ڈاکٹرسید عبداللہ لکھتے ہیں:[فقر] ایک روحانی کیفیت، ایک رویہ ہے جس کی رُو سے برتر مقاصد زندگی کو مادی لذائذ اور قریبی ترغیبات پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ فقر فرد کے اندر ایک خاص قسم کا وقار، ایک خاص قسم کا میلانِ بے نیازی پیدا کرتا ہے‘‘۔(مسائل اقبال، ص۲۵۰) چنانچہ وہ مال ودولت، مادی طرزِ فکر، حُبِّ دنیا، ہوسِ جاہ ومنصب اور آل اولاد کی محبت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اسے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ اور سارا کرّ وفر بے حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ وہ صرف ذاتِ واحد پر ایمان رکھتا ہے اور اسی پر بھروسا کرتا ہے ،اس لیے علامہ اقبال کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ سکندرودارا جیسے معروف حکمرانوں اور شاہوں سے بھی بلندوبرتر اور اُونچا ہوتا ہے، بشرطیکہ اس کی فقیری میں اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسوۂ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار پائے جاتے ہوں۔ فرماتے ہیں: ؂ دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی (بال جبریل،ص۵۷؍۳۴۹) ؂ نہ تخت و تاج ، نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے (ایضاً،ص۶۸؍۳۶۰) ؂ فقر کے ہیں معجزات ، تاج و سریر و سپاہ فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ (ایضاً،ص۷۷؍۳۶۹) ع مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی (ایضاً،ص۳۵؍۳۲۷) حضرت علی ہجویری علیہ رحمہ کے نزدیک فقر کی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں، بلکہ دل کو دنیا کی محبت سے خالی اور اس سے بے نیاز کرنا ہے۔ (کشف المحجوب،ص ۸۴) علامہ اقبال کے تصورِ فقر کو بھی ترک دنیا، سکوں پرستی، خانقاہیت یا گوشہ گیری سے کوئی علاقہ نہیں کیوں کہ یہ رویہ ’’کش مکشِ زندگی میں گریز‘‘ کی طرف لے جاتا ہے اور زندگی کا ارتقا، کش مکش اور حرکت و جدوجہد ہی سے ممکن ہے۔ راہب جس سکوں پرستی کا قائل ہے، وہ تحرک اور فعالیت کی ضد ہے۔ ضربِ کلیم کی نظر ’فقر و راہبی‘ میں علامہ نے کہا ہے: ؂ کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی (ضربِ کلیم،ص۵۰؍۵۱۲) اقبال گوشہ گیری کے اسی حد تک قائل ہیں، جس حد تک اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیتا ہے، مثلاً رمضان المبارک میں چندروز کے لیے اعتکاف کی صورت میں خلوت نشینی کی اجازت ہے اور یہ خلوت نشینی بھی ذکر الٰہی، فکرِ آخرت، ضبطِ نفس، خود احتسابی اور ان سب کے نتیجے میں استحکام خودی کے لیے ہے۔ اتباع سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اعتکاف کرنا، نہ صرف کارِ ثواب ہے بلکہ یہ معتکف کو اصلاحِ باطن اور صفاے قلب کے لیے ایک سازگار ماحول بھی فراہم کرتا ہے۔ علامہ اقبال جن اخلاق و اوصاف کو فقر کا لازمہ سمجھتے ہیں، ان میں صبروشکر، تسلیم ورضا اور حلم وانکسار بھی شامل ہیں مگر اس تسلیم ورضا کے معانی، بے کسی، ناتوانی یا ضعف کے نہیں ہیں۔ فقر تحرک و جرأت کا نمونہ ہوتا ہے بلکہ قوت کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر فقر ودرویشی کے ساتھ بے چارگی اور بے بسی کے تصورات وابستہ ہیں۔ اقبال کے تصورِ فقر میں اس کی گنجائش نہیں۔ اقبال کا فقیر جرأتِ رندانہ کا مالک ہے۔ چوں کہ وہ غیر اللہ سے مستغنی ہے، اس لیے اس بے باک انسان کو کسی کا خوف ہے نہ کسی کی پروا۔علامہ کہتے ہیں: ؂ ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق (بال جبریل،ص۳۴؍۳۲۶) وہ قرآن حکیم کے اس فرمان پرکار بند ہوتا ہے: اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ فقر اورجرأت وبے خوفی کے باہمی تعلق کو علامہ بعض مخصوص تراکیب سے واضح کرتے ہیں، مثلاً: فقرحیدری، بوے اسداللّٰہی، سرمایۂ شبیری، متاعِ تیموری وغیرہ۔ تاریخ وروایات میں حیدر، شبیراور تیمور غیر معمولی جرأت اور عزم وہمت کی علامتیں ہیں۔ اس حوالے سے اقبال سمجھتے تھے کہ مرد فقیر مزاحم قوتوں کا مقابلہ نہایت ثبات واستقلال کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ کش مکش، پیکار اور ٹکراؤ میں ایک لطف محسوس کرتا ہے۔ ضربِ کلیم کی نظم ’فقروملوکیت‘ فقر کی قوت وشوکت اور اس کے جلالی مزاج کا اظہار ہے۔ فرماتے ہیں: ؂ فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے تازہ ہر عہد میں ہے قصّۂ فرعون و کلیم (ضربِ کلیم،ص۳۰؍۴۹۲) بے باکی وبے تابی اور اظہار جرأت وقوت فقر کی پہچان ہے۔ یہی اس کی زندگی کی علامت ہے اور اسی حوالے سے وہ حق کا پاسبان اور محافظ ہے: ع زندہ حق از قوتِ شبیری است (اسرارورموز،ص۱۱۰) کسی معرکے میں اگر اسے وقتی طور پر پسپا بھی ہونا پڑے، تب بھی وہ ذہنی طور پر شکست قبول نہیں کرتا۔ اس طرح فقر کا اقبال کے فلسفۂ جہدو عمل سے ایک قریبی تعلق قائم ہوتا ہے۔ مردِ فقیر فلاح انسانیت کا علمبردار ہے۔ وہ فطرت پر بھی غالب آسکتا ہے اور تسخیر جہات بھی اس کے لیے ناممکن نہیں: ؂ فقر بر کرّوبیاں شبخوں زند بر نوامیسِ جہاں شبخوں زند (پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶) ؂ فقرِ مومن چیست ؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیر او مولا صفات (ایضاً،ص۲۲؍۸۱۸) اقبال کے تصور فقر کا قوموں کے عروج وزوال سے بھی گہرا تعلق ہے۔کسی معاشرے کی اجتماعی سربلندی میں صاحب فقر اپنی متحرک شخصیت کی وجہ سے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ دنیا کی قیادت اور امامت فقیر کی وراثت ہے اور اس کا استحقاق بھی ہے۔ دنیا میں سربلندی صرف اسی قوم کا مقدر ہے جس کے افراد فقر کی صفت کو اپنائیں۔ امت مسلمہ نے جب سے فقر کی غلط تعبیر اپنائی، اور حقیقی اسلامی فقر کو ترک کر دیا تو زوال واِدبار اور پستی ونکبت کا شکار ہو گئی۔ علامہ فرماتے ہیں: ؂ یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی (ضربِ کلیم،ص۵۱؍۵۱۳) ؂ نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ (بال جبریل،ص۲۳؍۳۱۵) ؂ اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی خونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز (ایضاً،ص۲۶؍۳۱۸) علامہ اقبال نے اُردو شاعری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شاہین کا ایک خاص تصور پیش کیا ہے۔ اقبال کا شاہین کارزارِ حیات میں چند مخصوص امتیازات رکھتا ہے۔ فقر بھی انھی امتیازات سے متصف ہے۔ علامہ اقبال نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ:’’اس جانور میں اسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں: (۱)خوددار اورغیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (۳)بلند پرواز ہے۔(۴)خلوت پسند ہے۔ (۵)تیز نگاہ ہے‘‘۔(اقبال نامہ،ص۱۹۴) گویا شاہین میں بیش تر وہ امتیازات موجود ہیں جو فقیر کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ بعض مقامات پر اقبال کے ہاں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے فقر کی تجسیم آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں کی ہے۔ اسی طرح حضرت علی اور حضرت شبیر اورحضرت خالد بن ولید رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی ایسے مردانِ قلندر میں شمار کرتے ہیں جن کا وجود کسی معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت ہوتا ہے: ؂ آتشِ ما سوز ناک از خاکِ او شعلہ ترسد از خس و خاشاکِ او بر نیفتد ملتے اندر نبرد تا درو باقیست یک درویشِ مرد (پس چہ باید کرد،ص۲۱؍۸۱۷) اقبال کے تصور فقر کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کئی جگہ خود کو ایک ’قلندر‘ اور’ مردفقیر‘ قرار دیتے ہیں۔ فقر کو وہ اپنے لیے باعثِ عزت وفخر سمجھتے ہیں۔ وہ فقرکو شاعری سے بھی برتر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دولتِ فقر کے مقابلے میں دنیا کی ظاہری شان و شوکت ہیچ ہے۔ فرماتے ہیں: ؂ خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری وگر نہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟ (بال جبریل،ص۴۸؍۳۴۰) ؂ مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر (ایضاً،ص۱۴۷؍۴۳۹) ؂ مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی (ایضاً،ص۱۴۶؍۴۳۸) علامہ کا دعوے فقر وقلندری نری لفّاظی نہیں، انھوں نے اپنے نجی زندگی میں بھی فقروقلندری کو برتا ہے۔ مزاجاً و عملا وہ درویش تھے۔ مولانا غلام رسول مہر طویل عرصے تک حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر رہے۔ سفروحضر میں بھی ساتھ رہا۔ وہ لکھتے ہیں:’’ان کی فطرت وطبیعت درویشانہ تھی۔ یہ ان کے کلام میں بار بار نظر آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ’فقیر‘ اور ’درویش‘ اور ’قلندر‘ کہہ کر پکارتے تھے تو یہ کوئی شاعرانہ تخیل آرائی نہ تھی بلکہ ان کی فطرت کے صحیح احساس کا اظہار تھا‘‘۔(حیات اقبال کے چند مخفی گوشے، ص ۵۵۵) مہرصاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’فقیری، قلندری، توکل اور خدا کے سوا ہر شے سے بے نیازی اقبال کے وہ اوصاف ہیں جو آخری دور کی طرح پہلے دور میں بھی ممتاز تھے‘‘۔(اقبالیات مہر،ص۲۲۲) حیات اقبال کے بعض واقعات، ان کے درویشانہ اِستغنا کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً: بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں نے مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کا پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ اس کے محرک سر راس مسعود تھے۔ سر راس نے یہ کوشش بھی کہ بہاول پور اور حیدرآباد کی ریاستوں اور سر آغا خاں کی طرف سے بھی اسی طرح کے وظائف مقرر ہو جائیں۔ ان کی درخواست پر آغا خان نے پانچ سو روپے ماہوار کی اعانت منظور کر لی مگر خود اقبال نے ان تجاویز کو پسند نہیں کیا۔ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۵ء کو راس مسعود کے نام ایک خط میں لکھا: ’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضر ت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے، وہ کافی ہے اور کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپے کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔(اقبال نامے،ص۱۹۵) اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد، علامہ کو سیالکوٹ والے مکان کا ایک حصہ دینا چاہتے تھے۔ یہ علامہ کا اِستغنا تھا کہ وہ مکان لینے کے لیے تیار نہ ہوئے بلکہ ستمبر ۱۹۳۰ء میں انھوں نے جائیداد میں اپنے حقوق سے دست برداری کی قانونی دستاویز بھی لکھ دی۔(مظلوم اقبال، ص۷۵، ۷۹، ۸۰) اسی طرح آخری زمانے میں انھوں نے حیدرآباد دکن سے سر اکبر حیدری کا بھیجا ہوا ایک ہزار روپے کا چیک قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (ارمغانِ حجاز اردو، ص۴۸؍۶۹۰) علامہ کا یہ مصرع خود انھی پر صادق آتا ہے: ع فقیرِ راہ نشین و دل غنی دارد (پیام مشرق،ص۶۳؍۳۳۳) اقبال کا تصورِ فقر اُردو شاعری میں ایک نیا اور منفرد تصور ہے۔ کش مکشِ حیات سے فرار، رہبانیت یا ترکِ دنیا سے اس کا علاقہ نہیں بلکہ انسانی ارتقا کے لیے فقر کا متحرک اور برسرِ عمل رہنا ضروری ہے۔ وہ حق وباطل کی آمیزش میں حصہ لیتا ہے اور مثبت اور اخلاقی قدروں کے ذریعے معاشرے کو صحت مند اور پاکیزہ بنانے میں معاونت کرتا ہے۔ وہ مادیت میں ملوث نہیں ہوتا کیوں کہِ استغنا اس کی بنیادی سرشت ہے جو انسان کے اندر نیک طینتی کو فروغ دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے فقر کے مفہوم کو وسعت دی ہے اور واضح کیا ہے کہ نہ صرف فرد کے روحانی ارتقا بلکہ معاشرے کی صحت مند اور قومی وملّی سربلندی کے لیے بھی فقر کا رویہ اور قلندرانہ طرزِ عمل اپنانا ضروری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی) کتابیات ۱۔ اعجازاحمد:مظلوم اقبال۔اعجازاحمد۔کراچی،۱۹۸۵ء ۲۔ اقبال،علامہ محمد:اقبال نامہ(مرتبہ:شیخ عطاء اللہ)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء ۳۔ اقبال،علامہ محمد:اقبال نامے(مرتبہ:ڈاکٹراخلاق اثرؔ )۔مدھیہ پردیش اردواکادیمی، بھوپال،۶ ۲۰۰ء ۴۔ اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال اردو۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء ۵۔ اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال فارسی۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء ۶۔ اقبال،علامہ محمد:مکتوبات اقبال(مرتبہ:سیدنذیرنیازی)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور،۱۹۷۷ء ۷۔ حمزہ فاروقی،محمد:حیات اقبال کے چندمخفی گوشے۔ادارہ تحقیقات پاکستان،دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۸۸ء ۸۔ سیدعبداللہ،ڈاکٹر:مسائل اقبال۔مغربی پاکستان اردواکیڈمی لاہور،۱۹۷۴ء ۹۔ علی ہجویری، شیخ:کشف المحجوب(مترجم:میاں طفیل محمد)۔اسلامک پبلی کیشنزلاہور، ۱۹۸۰ء ۱۰۔ مہر،غلام رسول:اقبالیات مہر(مرتبہ:امجدسلیم علوی)۔مہرسنز لاہور،۱۹۸۸ء 🍀☘*وصلی اللہ تعالی علی النبی الامی سیدنا و مولانا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما* 🌺🌹 📚🖋🌹