؛حضرت ہاجرہ علیہ السلام؛

1 حضرت ہاجرہ علیہ السلام فرعون مصر کی بیٹی تھیں اور عبرانی زبان میں لفظ ہاغاز کے معنی اجنبی اور بیگانہ کے ہیں اس لیے حاجر کہلائیں بعض مورخین کا خیال ہے کہ عربی میں "ہاجر "کے معنی جدا ہونے والے کے ہیں اور ایک لحاظ سے ہاغاز کے ہم معنی ہے کیونکہ حضرت ہاجرہ اپنے باپ فرعون مصر اور وطن مصر سے جدا ہو کر اور ہجرت کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تشریف لائیں اس رعایت سے ہاجر کہلائیں۔

2. حضرت ابراہیم علیہ السلام اولاد سے محروم تھے اور اس وقت تک دونوں بیویوں سے کوئی بچہ نہیں پیدا ہوا تھا اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں اولاد کے لیے دعا کی اور چھوٹی بیوی ہاجرہ علیہ السلام امید سے ہوگئیں
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی
عنہ سے روایت ہے کہ سارہ علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ علیہ السلام کے درمیان ایک بار چپقلش ہوگی تو بی بی سارا نے قسم کھائی کہ اگر مجھے ہاجرہ پر کبھی قابو حاصل ہوا تو میں بی بی ہاجرہ کا ایک عضو کاٹ دونگی اللہ تعالی نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھیجا کہ وہ ان دونوں کی صلح کرائیں۔حضرت سارہ نے پوچھا اب میری قسم کا حیلہ کیا ہوگا؟حضرت ابراہیم علیہ السلام پر وحی ہوئی کہ سارہ علیہ السلام کو حکم دیں کہ وہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے کان چھید دیں اسی وقت سے عورتوں کے کان چھیدنے کا رواج ہو گیا۔
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت سارہ کو شاق گزرا اور انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ان ماں بیٹے کی رہائش اور قیام کے لئے علیحدہ انتظام کیا جائے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تو اللہ تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ آپ کے حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے لیے بہتری اسی میں ہے کہ حضرت سارہ علیہ السلام کی صلاح پر عمل کیا جائے ۔

4. حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم ربانی سے مجبور ہو گئے اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور ننھے منے بچے کو ساتھ لے کر اس جگہ پہنچے جہاں آجکل کعبۃ اللہ ہے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق زم زم کے موجودہ مقام کے بالائی حصے پر انہیں چھوڑ کر ایک پانی کا مشکیزہ اور کھجوروں کی تھیلی دی اور خود واپس چلے گئے اس وقت یہ جگہ بالکل اجاڑ سنسان اور ویران تھی اور میلوں تک کسی انسان کا نام و نشان تک دکھائی نہیں دیتا تھا .۔

5. جب حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس روانہ ہوئے تو حضرت ہاجرہ علیہ السلام ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہنے لگیں۔
"اےابراہیم۔! آپ ہمیں کیوں ایسی جگہ چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں چاروں طرف ویرانی اور ہیبت ناک خاموشی مسلط ہے جہاں کسی آدم زاد کا نشان تک نہیں یہاں ہمارا کو ن مونس و غم خوار ہوگا کون ہماری خبر گیری کرے گا"
مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش سرجھکائے اپنی راہ چلتے رہے آخر خاموشی سے تنگ آکر حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے پوچھا کہ خدا نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟
اس وقت آپ نے فرمایا' ہاں یہ خدا کے حکم سے ہے"
یہ سن کر حضرت ہاجرہ علیہ السلام کا دل مطمئین ہو گیا اور یہ کہہ کر واپس آ گئیں
" اگر یہ خدا کا حکم ہے تو بلاشبہ ہم کو ضائع و برباد نہیں کرے گا "

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ایک ٹیلے پر ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے وہ اپنی بیوی بچے کو نہیں دیکھ سکتے تھے تو انہوں نے کعبے کی جانب رخ کرکے بڑے پر اثر انداز میں اللہ سے دعا مانگی.
"اے ہم سب کے پروردگار ایک ایسے بے آب و گیاہ میدان میں جہاں کھیتی اور آب و دانہ کا نام و نشان تک نہیں میں نے اپنی اولاد تیرے لائق احترام گھر کے قریب لا کر بسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں پس تو اپنے فضل و کرم سے ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کے لئے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کر دے تاکہ تیرے شکر گزار رہیں "

6. حضرت ہاجرہ علیہ السلام چند دنوں تک اس مشکیزے سے پانی پی کر کھجوروں پر گزارہ کرتی رہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں لیکن جب یہ دونوں چیزیں ختم ہو گئیں تو اب پریشان ہوئیں بھوک اور پیاس سے نڈھال ہونے لگیں اور ایسی حالت میں معصوم بچہ بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر رو رہا تھا آخر ماں کی شفقت مادری یہ حالت برداشت نہیں کر سکا آنکھوں میں آنسو امڈ آئے  آکر کبھی ایک طرف ہو بیٹھتیں کے بچے کے درد ناک تکلیف اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں مگر کب تک غافل رہ سکتی تھیں تھوڑی دیر بعد ۔کچھ سوچ کر اٹھیں قریب ہی  ایک پہاڑی تھی جو آج کل صفحہ مروہ کے نام سے مشہور ہیں ک اس کے اوپر چڑھیں کہ شاید  کوئی نظر اجائےاور  مدد کے لیے درخواست کریں۔یا کہیں
پانی کا نشان مل جائے مگر وہاں کچھ بھی نہ چاروں طرف لق و دق صحرا نظر آتے تھے مایوس ہو کر واپس آ گئیں  مامتا نے جوش مارا تو وادی کی طرف جان نکلیں اور پھر دوڑ کر مروا نامی پہاڑی پر جا چڑھیں ۔
 
سات مرتبہ ایسا کیا یہی وہ سعی بین الصفا
 والمروہ ہے جہاں آج تک زائرین بیت اللہ شریف فرض کے طور پر ہر سال ادا کرتے ہیں اور اسے حج کا ایک اہم رکن تسلیم کیا گیا ہے.

7.آخری مرتبہ جب وہ مروہ پہاڑی پر پہنچیں تو  ایک عجیب سی آواز سنائی دی جسے سن کر چونک اٹھیں اور دل میں سوچا کہ کوئی پکار رہا ہے چنانچہ کان لگایا تو پھر وہی آواز سنائی دی پھر فرمایا کہ اگر تم مدد کر سکتے ہو تو سامنے آؤ میں نے تمہاری آواز سن لی ہے دیکھا تو خدا کا مقرب فرشتہ سامنے ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ کر پہلے تو ڈریں  لیکن جب انہوں نے زمین پر مارا یا بعض روایات کے مطابق ایڑی ماری تو زم زم کے مقام پر میٹھے پانی کا چشمہ ابلنے لگا حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ منظر دیکھا تو جلدی سے پانی کے چاروں طرف باڑ بنانے میں مصروف ہو گیئں مگر چشمہ اسی طرح ابلتہ رہا۔
 ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ
 اللہ اسماعیل کی والدہ پر رحم کرے اگر وہ" زمزم کو باڑ بنا کر نہ روکتیں اور اس کے چاروں طرف باڑ نہ بناتیں تو آج یہ چشمہ زبردست ہوتا۔
  اس کے بعد حضرت ہاجرہ نے نے سیر ہو کر پانی پیا  اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلایا حضرت جبریل علیہ السلام نے ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا
 خوف اور غم نہ کر اللہ تجھے تیرے بچے کو" ہرگز ضائع نہیں کرے گا یہ مقام جہاں تم دونوں مقیم ہو بیت اللہ ہے جس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لڑکے کی قسمت مقدر ہوچکی ہے اس لئے اللہ تعالی اس خاندان "کو ہلاک نہیں کرے گا.

8حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول تھا کہ وہ ہر سال اپنی بیوی اور بچے کو دیکھنے آیا کرتے تھے ایک مرتبہ آپ تشریف لائے ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر چھوٹی تھی تو خواب میں اللہ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی دیں ایک ایسے باپ کے لئے جس کو بڑی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد لڑکے کی صورت دیکھنا نصیب ہوئی تو میلوں کی مسافت اور درمیان میں ہائل کر دی گئی پھر اتنی مصیبتیں سہنے کے بعد جب اس نے ذرا ہوش سنبھالا تو اسے قربان کرنے کا حکم ملتا ہے یہ کتنا بڑا امتحان تھا جس کے تصور سے ماں باپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام  کوئی عام انسان نہ تھے بلکہ بہت بڑے پیغمبر تھے اور ان کی پوری زندگی رضائے الہی کے ساتھ سر تسلیم خم کرنے میں گزر ی تھی ۔ اسی لیے ممکن نہ تھا کہ محبت پدری اللہ کے حکم پر غالب آجاتی صبح اٹھ کر حضرت ہاجرہ صبح اٹھ کر حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو اس حکم سے آگاہ کیا تو اس پیکر تسلیم و رضا نہ ایک لمحہ کے لیے یہ نہیں سوچا کہ جس بیٹے کی خاطر انہوں نے شدید تکلیف اٹھائی اور مصائب برداشت کئے جس کی پرورش کے لئے بے آب و گیا اور ویران اور سنسان مقام پر تنہائی کی صعوبتیں برداشت کیں مگر انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے کیوں ذبح ہونے دیں ۔مگر اس سچی مومنہ نے فرمایا جو اللہ اور اس کے پیغمبر کی رضا وہی میری رضا اپنے ہاتھوں اکلوتے لخت جگر کو نہلایا صاف ستھرے کپڑے پہنائے اور بنا سنوار کرخواب کی تعمیر کے لئے باپ کے ساتھ روانہ کر دیا.سعادت مند بیٹے نے جب یہ سنا کہ اسے اللہ کی راہ میں ذبح کیا جا رہا ہے تو انتہائی ادب کے ساتھ باپ کو مشورہ دیا کہ اباجان بہتر یہ ہے کہ میری گردن پر چھری چلانے سے قبل میرے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے باندھ دیں تاکہ میرے خون کے چھینٹیں آپ پر نا  پڑیں اور مجھے تڑپتا دیکھ کر اپنے راستے میں کمزوری محسوس نہ کریں اللہ اکبر یہ تھے وہ لوگ جو خدا پرست کہلاتے تھے اور جنہوں نے دنیا میں نیکی اور ایثار کی بنیاد قائم کی چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور اللہ اکبر کہہ کر اسماعیل کے حلقوم پر چھری چلا دی مگر جب فارغ ہوئے تو دیکھا حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک طرف کھڑے مسکرا رہے ہیں اور سامنے ایک مینڈھا ذبح کیا ہوا پڑا ہے ۔اسی عظیم الشان واقع کی یاد تازہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے احکام پر ہر عزیز سے عزیز شخصیت کو قربان کرنے کی تربیت دیجائے اور وہ تسلیم ورضا کا سبق سیکھیں

9. اس کے کچھ عرصے بعد جب حضرت ابراہیم دوبارہ فلسطین سے حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو ملنے آئے تو کعبۃ اللہ کی تعمیر کا حکم ملا نے دونوں نے مل کر اللہ کے گھر کو دوبارہ تعمیر کیا جو آج تک مسلمانان عالم کی سجدہ گاہ ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پہلی شادی کے کچھ عرصے بعد حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا انتقال فرما گئیں اور تاریخ طبری کی روایت کے مطابق بیت اللہ کے قریب حرم کے اندر دفن ہوئیں۔

10. تاریخ عالم شہزادیوں اور حکمران عورتوں کے گوناگوں کارناموں سے بھری پڑی مگر اسلام سے قبل اور خلافت راشدہ کے بعد کی عورتوں میں کوئی بھی عورت  تسلیم و رضا الہی ،تربیت اولاد اور صبر و استقامت میں ان سے بڑھ کر نہیں ہو سکی انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے درویش صفت پیغمبر کی زوجیت میں آتے ہیں اپنی پرانی زندگی کو ایک بھولا بسرا خواب سمجھ کر فراموش کر دیا اور دوبارہ کبھی اس عیش والی  زندگی کی تمنا  نہیں کی   بلکہ ہر قدم پر اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جب خاوند سے علیحدہ ہو کر ایک ویران و سنسان سر زمین پر رہنے کا حکم ملا تو سنتے ہیں کہ اللہ کا یہی حکم ہے فورا اپنا سر جھکا دیا آپ نے اللہ پر توکل کرکے اس بے آب و گیاہ ویرانے میں ننھے بیٹے سمیت تنہا مقیم ہوگیں اور بڑے صبر و استقامت سے اس کی پرورش میں مصروف رہیں جب محنت کا شجر ثمر آور ہونے لگا بیٹا کھیل کود کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون بخشنے کے قابل ہوا تو حکم ملا کہ اسے اللہ کی راہ میں ذبح کر دو کیا دنیا کی کوئی بھی ماں اس کڑے اور کٹھن مصیبت زدہ  امتحان میں پورا اتر سکتی ہے ؟
اللہ تعالی تمام امت مسلمہ کی خواتین  کو دین  پر استقامت عطا فرمائے آئے
آمین