صدقہ فطر

ہر آزاد مسلمان جو حاجت اصلیہ سے فارغ ہو یعنی اپنی اور اہل و عیال کی ضرورت سے فارغ ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہے صدقہ فطر گھر کے تمام افراد کی طرف سے ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس میں مرد و عورت عاقل و بالغ اور بہت زیادہ مالدار ہونے کی کوئی شرط نہیں۔
صدقہ فطر واجب کرنے میں اللہ تعالی نے دو حکمتیں رکھی ہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر روزے میں کوئی کمی کوتاہی یا نقص ہو گیا تو اللہ تعالی صدقہ فطر کے صدقے اس کمی کوتاہی کو دور فرما دے گا ۔
گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو نقص اور خلل پیدا ہوگیا ہو وہ صدقہ فطر کے وسیلے سے جاتا رہے گا۔
اور دوسری حکمت یہ ہے کہ تمام غریب اور مسکین اور مفلس لوگ بھی عید کی خوشیوں سے دوبالا ہو سکتے ہیں۔
کیوں کہ صدقہ فطر عید الفطر کی صبح طلوع ہونے کے وقت واجب ہوتا ہے لیکن عید الفطر سے پہلے ادا کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ مساکین اور غرباء عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں اگر آپ عید الفطر کے بعد دیں گے تو سنت ادا ہوجائے گی لیکن اس کا اصل مقصد تھا وہ حاصل نہیں ہو سکے گا اگر یہ وقت گزر جائے تو یہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ بعد میں بھی ادا کرنا ہوتا ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ عید الفطر سے پہلے صدقہ فطر ادا کر دیا جائے تاکہ فقراء اور مساکین اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں۔
حضرت جریررضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا !
رمضان شریف کے روزے زمین اور آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں اور بغیر صدقہ فطر کے اوپر نہیں اٹھائے جاتے ہیں۔
(الترغیب وترہیب)

صدقہِ فطر کا نصاب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور چھوارے یا جو غلام، آزاد ،مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر مقرر فرمایا جبکہ گندم یا گندم کا آٹا نصف صاع بطور صدقہ فطر مقرر فرمایا۔
(ابو داؤد شریف اور نسائی شریف)
جاننا چاہیے کہ ایک صاع ساڑھے چار کلو کا پیالا ہے جو پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا اس لئے معلوم یہ چلا کہ صدقہ فطر میں ساڑھے چار کلو کھجور چھوارے یا جو میں سے کوئی بھی چیز فی کس کے حساب سے ادا کرنی ہوگی یا اس کے برابر رقم ادا کرنی ہوگی اگر گندم یا گندم کا آٹا دینا ہو تو سوا دو کلو فی کس کے حساب سے ادا کریں یا اتنی گندم یا گندم کے آٹے کی قیمت فی کس صدقہِ فطر ادا کریں ۔