ڈاکٹر روتھ فاؤ نے موت سے قبل اپنی تین خواہشات کا اظہار کیا تھا ، نمبر ایک ان کا علاج کسی صورت وینٹی لیٹر پر نہیں کیا جائے گا۔ یہ کہ جب وہ مرجائیں تو ان کی میت کو لپریسی سینٹر لایا جائے۔
ان کی یہ دو خواہشات پوری کی گئیں، میت لپریسی سینٹر آئی تو سب کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری خواہش یہ تھی کہ انہیں عروسی لباس میں دفن کیا جائے۔ وہ سرخ جوڑا پہن کر تابوت میں لیٹی تو جہان کا سکون ان کے چہرے پر تھا۔ روتھ فاؤ ساری زندگی دلہن نہیں بنی چونکہ وہ راہبہ تھیں۔ اپنے عقیدے کے مطابق دنیا تیاگ دی۔
1988ء روتھ فاؤ کو پاکستانی شہریت دینے کا اعزاز ملا اور 29 سالہ جرمن ڈاکٹر نے 1960ء کراچی کی ایک کچی کوٹھوں کی بستی میں قیام کا فیصلہ کیا تو سب حیران رہ گئے۔ تب کراچی آئی آئی چندریگر روڈ سے متصل ریلوے کالونی میں لوگ کوڑھ کے مریضوں کو لاعلاج سمجھ کر ڈال دیتے جہاں وہ سسک سسک کر مرتے رہتے۔
ابتداء میں وہاں ایک ہسپتال کی بنیاد رکھی اور کوڑھ مریضوں کی پوری بستی کا خاتمہ کر دیا۔
وہ پاکستان میں اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس ایک چھوٹے سے کمرے میں تنہا رہیں، چارپائی نما بستر سرہانے رکھا کولر میز پر چند کتابیں اور سامنے میز پر رکھے کچھ برتن۔ روتھ فاؤ نے کبھی اپنے یا اپنے کام کی تشہیر نہیں چاہی۔ خاموشی سے کام کرتی رہیں خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئی،
عالمی اداروں نے 1996ء پاکستان کو لپریسی کنٹرول کرنے والا ملک قرار دے دیا۔ ایک اکیلی فاؤ نے جذام کا پاکستان سے خاتمہ کر دیا