ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت مبارکہ 
نام اور نسب :۔نام حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کنیت ام عبداللہ لقب صدیقہ خطاب حمیرا اورعویش تھا۔والد کی طرف سے قریشیہ اور والدہ کی طرف سے کنانیہ مشہور تھی۔والدین :۔سیدہ عائشہ صدیقہ کے والد محترم کا نام عبد اللہ کنیت ابو بکر اور لقب عتیق تھا ۔آپ کی والدہ کا نام سیدہ زینب بنت عامر اور کنیت ام رومان تھیں ان سے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تھیں۔ آپ کی والدہ کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص قرآن جنت میں سے کسی عورت کو دیکھنا پسند کرتا ہے تو وہ ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھ لے۔ سن دو ہجری میں آپ کی والدہ کا انتقال ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک میں اترے اور فرمایا یا رب العالمین اس سے پوشیدہ نہیں رومان نے تیرے لئے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا کچھ برداشت کیا ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے چار شادیاں کی تھیں پہلی زوجہ قتیلہ بنت العزی تھیں ان سے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدہ اسماءرضی اللہ تعالی عنہا تھیں جن کا لقب ذات النطاقین تھا دوسری عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی والدہ ام رومان اور تیسری زوجہ سیدہ عمیس رضی اللہ تعالی عنہا  جن سے سیدنا محمد رضی اللہ تعالی عنہ اور چوتھی بیوی سیدہ حبیبہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا تھیں۔ ولادت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا: ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ولادت ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے 8یا 9 برس قبل ہوئی اس سال 613 اور 614 اختلاف کے ساتھ تاریخ میں درج ہے آپ کی ولادت کا شرف جس محلے میں ہوا وہ اب مسفلہ یا منقلہ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کی پیدائش سے چار سال پہلے ہی آپ کے والد ماجد حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ دولت  اسلام حاصل کر چکے تھے اس لئے آپ نےآنکھ کھلتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی ۔رضاعت و بچپن :۔ماں باپ نے دودھ پلانے کے لئے حضرت ابو قعیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی کا انتخاب کیا اور وہی ان کو دودھ پلاتی رہی زمانہ رضاعت کے بعد آپ اپنے والدین کے ساتھ ہی رہیں۔ غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن ہی سے اپنی حرکات و سکنات اور نشونما میں ممتاز ہوتے ہیں ان کے ناصیہ اقبال سے مستقبل کا نور خود بخود چمک چمک کر تابناک مستقبل کا پتہ دیتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بچپن بھی ایسا ہی تھا ان کے ہر عمل اور انداز سے سعادت اور سربلندی کے آثار نمایاں تھے ۔ایک مرتبہ حضرت عائشہ گڑیوں سے کھیل رہی تھی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے گھڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے دائیں بائیں پر لگے ہوئے تھے آپ نےپوچھا عائشہ یہ کیا ہے ؟حضرت عائشہ نے جواب عرض کیا یا رسول اللہ یہ گھوڑا ہے آپ صلی وسلم نے فرمایا گوڑو کے پرتو نہیں ہوتے۔حضرت عائشہ نے برجستہ جواب دیا کیوں حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے تو پرتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سن کر بے ساختہ مسکرا دیئے ۔اس واقعہ سے حضرت عائشہ کی فطری حاضر جوابی مذہبی واقفیت زکاوت ذہن اور سرعت فہمی  کا اندازہ ہوتا ہے۔شادی: ۔حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلے جبیر بن معطم سے نامزد ہوئی تھیں اسکے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیغام نکاح دیا تو حضور صلی وسلم کے ساتھ چھ سال کی عمر میں شوال دس نبوت میں مکہ معظمہ میں نکاح ہوا اور مدینہ طیبہ آکر شوال 2 ہجری کے آخر میں آپ کی رخصتی ہوئی۔حضرت عائشہ رضیاللہ تعالی عنہ شوال میں نکاح کرنے کو پسند فرماتی تھیں برخلاف اس کے دور جاہلیت میں اسے ناپسند کیا جاتا تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ میرا نکاح اور زفاف شوال میں ہوا اور کون سی عورت ہے جو مجھ سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی ۔بعض سفروں میں آپ ان کو یاد فرماتے اور کہا کرتے تھے کہ واعروساہ ۔وصال اور تدفین: ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اور صلی اللہ علیہ وسلم کی  مدت صحبت 9 سال تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت ان کی عمر 18 سال تھی ان کی وفات منگل کے دن 17 رمضان المبارک کو 57 ہجری میں ہوئی ان کی عمر شریف 66 سال تھی آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ آپ کی تدفین رات کے وقت جنت البقیع میں کی جائے ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھائی تھی۔ اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہوا توجب آپ کے گھر سے رونے کی آوازیں آئیں تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی باندی کو خبر لانے کیلئے بھیجا جب وہ خبر لائیں کہ آپ کی وفات ہوگئی ہے تو امی سلمہ رونے لگی اور فرمایا کہ اللہ تعالی ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صل وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوبہ تھی اپنے والد ماجد کے بعد ۔فضائل عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا :۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اعظم فضائل و مناقب میں سے ان کے لئے حضور صلی وسلم کا بہت زیادہ محبت فرمانا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلی محبت جو پیدا ہوئی وہ حضوراکرم صلی اللہ تعالی کی محبت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےصحابہ کرام پوچھا کہ آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا نے" عائشہ "پھر پوچھا مردوں میں سے ؟    فرمایا ان کے والد ۔بخاری شریف میں حضرت موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں میں تو بہت لوگ تکمیل کے درجے پر پہنچے مگر عورتوں کے اندر صرف مریم بنت عمران اور آسیہ زن فرعون ہی تکمیل کو پہنچیں اور عائشہ کو تو ان عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر ۔حضرت عائشہ کے کمالات علیہ پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے صحیحین  میں روایت کیا گیا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا" یہ جبرائیل ہیں جو تم کو سلام کہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا کہ ان پر اللہ کا سلام اور رحمت ہو "۔اس فضیلت کی وجہ سے حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے وہ کمالات روحانی ہیں جن کی وجہ سے ان کا منصب بارگاہ الہی میں نہایت بلند تھا اور جن کے وجود سے ان کو انوار نبوت سے بدرجہ اتم ہونے کی قابلیت حاصل ہو گئی تھی اس کا ذکر صحیح بخاری کی اس حدیث میں موجود ہے جسے المومنین ام سلمہ نےروایت کیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے "یہ عائشہ ہی ہے کہ میں اس کے لحاف میں ہوتا ہوں تو اس وقت بھی وحی کا نزول ہوتا ہے مگر دیگر ازواج کے بستروں میں کبھی ایسا نہیں ہوا "یہی وجہ تھی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سید العالمین کو بھی محبت عائشہ کی تلقین کی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا "پیاری بیٹی کیا جس سے میں محبت کرتا ہوں تم اس سے محبت کرو گی ؟حضرت فاطمہ نے جواب دیا بالکل یہی درست ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بھی عائشہ سے محبت رکھا کر "۔  حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نعلین کو پیوند لگا رہے تھے اور میں چرخا کات رہی تھی میں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر پسینہ آ رہا ہے اور اس پسینے کے اندر ایک نور ہے جو ابھر رہا ہے اور بڑھ رہا ہے میں اس نظارے کو سراپا حیرت بنی دیکھ رہی تھی جب نبی کریم کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا عائشہ تو حیران کیوں ہو رہی ہو ؟سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کی پیشانی کے پسینے نے مجھے حیران کر دیا ہےبخدا اگر ابو کبیر حضور کو دیکھ پاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے اشعار کی صحیح مذاق حضوری ہو سکتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کے شعر کیا ہیں؟  میں نے یہ شعر پڑھ کر سنائے۔وہ دلالت اور رضاعت کی آلودگیوں سے مبرا ہیں ان کے درخشاں چہرے پر نظر کرو تو معلوم ہوگا کہ نورانی اور روشن برق جلوہ دے رہی ہے"۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو کچھ رکھ دیا اور آپ سے سلم نے میری پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا "۔اے عائشہ اللہ تمہیں جزائے خیر دے تم اتنا مجھ سے مسرور نہیں ہوئی جتنا تم نے مجھے مسرورکر دیا۔حضرت مسروق جو اکابر تابعین میں سے ہیں جس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے تو فرماتے تھے "حدثنی الصدیقةبنت الصدیق حبیبة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سبحان اللہ )از قلم پروفیسر روبینہ امین