*حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا عشق رسول اللہ تعالیٰ علیہ وسلم*
:۔اختصاراامی عائشہ کی ایسی خصوصیات رقم القرطاس کرنے کی کوشش کی ہے جو خود امی جان سے روایت ہیں
۔صورت لرسول اللہ قبل ان صور فی رحم امی۔ مجھے رحم مادر میں صورت دئے جانے سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئےمجسم کیا گیا
۔
تزوجی بکراولم یتزوج بکرا غیری۔ میرے علاوہ
کسی عورت سے کنوارے پن میں شادی نہ فرمائ ۔کان ینزل علیہ الوحی و ھو بین سحری ونہری۔
آپ پر اس وقت وحی اتری جب آپ میرے سینےپر آرام فرما ہوئے۔نزلت برائتی من السماء۔ میری برات آسمان سے اتری:
- ۔کنت احب الناس الیہ۔ میں تمام لوگوں میں آپ کو زیادہ محبوب تھی۔
۔کان یصلی وانا معترضة بین یدہ ولم یکن یفعل ذالک باحدمن نساء غیری۔ میں آپ کے سامنے لیٹی ہوتی اور حضور نماز پڑھ رہے ہوتے یہ اعزاز میرے علاوہ کسی کو عطاء نہیں ہوا۔
ولم ینکح امراةابواھامحاجرین غیری۔ آپ محاجروالدین کی اولاد کوی خاتون میرے علاو زیر عقد نہیں لائے
۔کنت اغسل انا و ہو بین اناءواحدولم یکن یفعل ذالک باحد من نساء۔ حضور میرے ساتھ ایک برتن میں غسل فرماتے تھے یہ اعزاز میرے علاوہ کسی اور خاتون کو حاصل نہیں
۔قبض اللہ نفسہ و ھوبین سحری ونحری ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح میری گود میں قبض کی ۔ومات الیلة التی کان یدورعلی فیھا دفن بیتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس رات ہوا جب میری باری تھی اور میرے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں۔
۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ سلم میرے لیے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالی جنت میں مجھے آپ کی ازواج مطہرات میں سے رکھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس مرتبہ کو چاہتی ہو تو کل کے لیے کھانا بچا کے نہ رکھو اور کسی کپڑے کو جب تک اس میں پیوند نہ لگ سکتا ہو بیکار نہ کرو۔۔۔سید صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت و نصیحت جو فقر کو تونگری پر ایثارکرنے پر ہےاتنی پابندی سے کاربند رہیں کہ آج کا کھانا کل پر بچا کر نہ رکھا حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ستر ہزار درہم راہ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا ہے ۔حالانکہ ان کی قمیض کے دامن میں پیوند لگا ہوا تھا ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو ایک لاکھ درہم بھیجے تو انہوں نے اسی دن سب انفاق کر دیے اور اقرباء و فقرا میں تقسیم فرما دیے اس دن کو روزے سے تھیں شام کے لیے کچھ نہ تھا باندی نے عرض کیا کہ اگر ایک درہم بچا لیتی تو روٹی خریدنے کے لئے تو اچھا ہوتا فرمایا یاد نہیں آیا اگر آجاتا تو بچالیتی۔
*خدمات علمیہ و مراتب رفیعہ*
*سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے فضائل و مناقب بے حد اور بے شمار ہیں آپ کی شخصیت کا احاطہ کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے دیکھا جائے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو قدرت کاملہ نے دیگر خصوصیات کے ساتھ بےپناہ ذہانت اور علم و فضل سے نوازا تھا ۔حضرت امام زہری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں "اگر تمام لوگوں کا علم میں دیگر ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جمع کیا جائے تو اکیلی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا علم کافی ہے "بعض سلف سے منقول ہے کہ احکام شریعہ کا فیصلہ کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع معلوم ہوا ہے حدیث پاک ہے "خذواثلثی دینکم من ھذہ حمیرا" ۔تم دو تہائی دین حمیرہ یعنی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حاصل کر لو ۔علوم شرعیہ کی جو مقدار امت مسلمہ تک پہنچی ہے وہ بقول ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے"فاکثر الناس اخذوا عنھاونقلوا عنھامن الاحکام واداب شیا کثیراحتی قیل ان ربع الاحکام الشرعیہ منقول عنھارضی اللہ عنہ( فتح الباری) ۔حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کوعلم المعانی القرآن ؛احکام حلال و حرام ؛اشعار عرب ؛اور علم میں انساب میںحضرت عائشہ صدیقہ سے زیادہ عالم نہ دیکھا ۔ایک جگہ اور آپ کا قول ہے "اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا اور ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس کے متعلق علم موجود ہوتا "۔غرض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین کرام رضوان اللہ اجمعین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضل و کمال کا اجمالی تصور بہت فصاحت اور خوبی کے ساتھ پیش کیا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے علم تفسیر "علم حدیث ؛علم اسرار الدین ؛فنی درایت ؛علم طب اور علمی انصاف کے ساتھ ساتھ اس علم پر بھی دسترس حاصل کی جو اس وقت ابتدائ شکل میں تھا یعنی علم فقہ ۔دور رسالت میں علم فقہ کا دارومدار صرف سوالات پر تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کیے جاتے تھے یہی فقہ کی ابتدائی شکل تھی مگر سوالات بہت کم کیے جاتے تھے حتی کے مدینہ کے قیام کے دوران صرف سترہ سوال کیے گئے تھے ۔البتہ خواتین چونکہ عام طریقوں سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتی تھی لہذا وہ زیادہ تر سوالات کے ذریعے ہی تعلیم لیتی تھی اور اس سلسلے میں انصاری خواتین کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تعریف کیا کرتی تھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں۔"انصاری خواتین بہترین خواتین تھیں جنہیں حیا نے دین کی سمجھ پیدا کرنے سے نہ روکا "۔حضرت عائشہ کے علم فقہ میں مہارت کا اندازہ عطاء بن ابی رباح کے اس قول سے ثابت ہوتی ہے۔کانت عائشہافقہ الناس واعلم الناس واحسن الناس راہا فی العاملہ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کتب معتبرہ میں 2018 دیسی مرغی ہیں ان میں سے بخاری و مسلم میں 174 متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری میں 54 اور صرف مسلم میں 68 بقیہ تمام کتابوں میں ہیں ۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی دیگر علوم میں علم الکلام میں امکان رؤیت باری تعالیٰ ؛عصمت انبیاء ؛علم الغیب ؛معراج ؛ ترتیب خلافت؛سماع موتیٰ کے مسائل ؛علم تاریخ میں کیفیت آغاز وحی؛ واقعات ہجرت ؛واقعہ افک، حالت مرض الوصال ،غزوہ ذات الرقاع ،اخلاق و عادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ایام العرب کے بے شمار واقعات منقول ہیں ادبی مہارت کے لئے حدیث میں ذرع شاعری ذوق کے لیئے آپ کا بے پایاں علم الشعر ،خطابت کے لیے خطبہ واقعہ جمل کافی شاہادت ہیں۔البدایہ والنہایہ میں امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بے مثال اسلامی روایات اور علوم کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور دیگر لوگوں کے نقطہ ہائے نظر کو یکجا کر کے پیش کیا ہے ۔وہ ابتدا ہی اس بات سے کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ دیگر امہات المومنین یا دوسری خواتین کے مقابلے میں علم و فضل کے لحاظ سے یکتائے زمانہ تھیں حتی کہ ان تمام خواتین کے علم کو یکجا بھی کر لیا جائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا علم یقینا ان پر افضل تھا۔حضرت عطاء بن رباح رضی اللہ اللہ اللہ تے ہیں کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے وقت کی عظیم ترین فقیہ تھیں تمام ام المومنین میں قابل ترین قوت فیصلہ کی مالک ذہین اور فطین تھیں۔ امام ترمذی نے مصروف سے نقل کیا ہے "میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمر صحابہ کرام وراثت وغیرہ کے معاملات میں ان سے رہنمائی لیتے تھے "۔سید سلیمان ندوی سیرت عائشہ میں مزید بیان کرتے ہیں کہ وہ آیات قرآنی کی مختلف اسالیب میں قرات کرنے اور ان کےاصلی اور بنیادی معنی و تشریح پر گہری گرفت رکھتی تھی ۔اور دلائل پر مبنی طریقہ کار سے عنایات سے استنباط کیا نتائج اخذ کرنے پر عبور رکھتی تھی ۔ہر سوال کا برمحل جواب دینے کے لیے وہ پہلے قرآن کا حوالہ دیتی ہیں قائد سے متعلق سوالات کیا احکامات کی قرآنی تشریح یا ترجمانی کے لئے وہ قرآن پاک کے حوالے سے استنباط کرتیں۔ ۔از قلم: ۔پروفیسر عالمہ روبینہ امین
0 تبصرے