شیر  




شیر ا یک معروف درندہ جانور ہے عربی زبان میں شیر کو اسد کہا جاتا ہے اس کی جمع اسود آتی ہے شیرنی کے لےلبوةاسدة استعمال کرتے ہیں عربی میں شیر کے بہت سے نام ہیں  ۔اہل علم نے لکھا ہے کسی چیز کے زیادہ نام ہونا اس چیز کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں 
چنانچہ ابن خالویہ کہتے ہیں کہ شیرکے پانچ سو نام ہیں اور اس کی اتنی ہی صفات ہیں اور علی بن جعفر اللغوی نے 130 اور ناموں کا ذکر کیا ہے اس طرح اس کے کل 630 نام ہو گئے ۔
*اس کے کچھ مشھور نام یہ ہیں
اسامہ ؛تاج ؛جخدب؛ حرث؛ ضیغم؛ وغیرہ۔ 
علمائے لغت نے شیر کی کنیت کے لے ابو ابطال؛ ابو حفص؛ ابواخیاف؛ ابوشبل؛ابوعباس
 ذکر کئے ہیں ۔
شیر کو جنگلی جانوروں میں افضل و اشرف سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ شاعر کی حیثیت اس کے طاقتور بہادر سنگدل چالاک سود مزاج اور بدخلق ہونے کی وجہ سے ایک بارعب بادشاہ کی ہوتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ شیر سے قوت دلیری بہادری اور حملہ آوری میں مثال دی جاتی ہے اس لیے حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو اسداللہ( شیر خدا )کہتے ہیں ۔اہل علم لکھتے ہیں کے شیر کیلئے یہ بات قابل فخر ہے کہ اس کے نام سے  حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شیر خدا کا لقب دیا گیا ہے ماہرین کہتے ہیں کہ شیر میں بہت سی ایسی صفات ہیں  جو کسی دوسرے جانور میں نہیں  پائی جاتیں شیر بھوک کی حالت میں صبر کرتا ہے اس کو پانی کی حاجت بہت کم محسوس ہوتی ہے دوسرے جانوروں کا شکار کیا ہوا جھوٹاکبھی نہیں کھاتا اور شکارکھاتے ہوئے اگر اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو اس کو وہیں چھوڑ دیتا ہے پھر دوبارہ اس کی طرف نہیں جاتا جب اسے بھوک لگتی ہے تو بہت ہی بد خلق ہو جاتا ہے اور شکم سیر ہو کر اپنی بدخلقی ساری کھو دیتا ہے شیر کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ کتے کا جھوٹا پانی کبھی نہیں پیتا 
شیر کا نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ نہایت بہادر اور دلیر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں بزدلی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے  شیر مرغ کی آواز سےاورسلفچی کی کھنک سے  خوف محسوس کرتا ہے کبھی بلی کی خوفناک آواز بھی اس کے ڈرنے کا سبب بن جاتی ہے اور آگ کو دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے ۔شیر کی گرفت نہایت مظبوط ہوتی ہےوہ کسی درندے سے الفت نہیں رکھتا قدرتی طور پر ہمہ وقت بخار میں مبتلہ رہتا ہے طویل العمرہوتا ہے اس کے بڑہاپے کی علامت یہ ہے کہ اس کے دانت گرنے لگتے ہیں ۔
حدیث پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں   ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام روئے زمین میں اس حال میں اتریں گے کہ دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ان کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا ہے حالانکہ ان کے سر میں کسی قسم کی نمی یاتری نمایاں نہیں ہوگی وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے خنزیر کو قتل کردیں گے ان کی آمد سے مال کی کثرت ہو جائے گی زمین پر امن اور انصاف ہوگا عدل کا یہ عالم ہوگا کہ شیر اونٹ کے ساتھ چیتا گائے کے ساتھ پانی پینگے بکری اور بھیڑیا ساتھ ساتھ  پانی پینے میں کوئی خوف محسوس نہیں کریں گے یہاں تک کہ بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ملیں گے ایک دوسرے کو کوئی نقصان نہ پہنچائے گا اس حالت میں یہ عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زندہ رہیں گے پھر انتقال ہو جائے گا تو مسلمان تجہیز و تکفین کے بعد نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردیں گے 
دلائل النبوۃ میں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ سرزمین روم کے قریب لشکر سے پیچھے رہ گئے تو آپ کو گرفتار کر لیا گیا پھر آپ وہاں سے فرار ہو کر لشکر کی تلاش کر کو تلاش کرتے ہوئے آرہے تھے تو راستے میں دیکھتے ہیں کہ شیر کھڑا ہے آپ نے  شیر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا  ۔ ! اے ابو الحرث میں سفینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آگیا ہے یہ سن کر د م ہلاتا ہوا آپ کے برابر میں آ کر کھڑا ہو گیا اور جب حضرت سفینہ جنگل میں کسی قسم کی آواز میں سن لیتے تو شیر کو پکڑ لیتے ہیں آپ شیر کے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ لشکر کو پا لیا اس کے بعد شیر واپس جنگل میں پلٹ گیا ۔
شیر کا شرعی حکم :۔امام ابو حنیفہ امام شافعی اور جمہور علمائے کرام کے خیال میں شیر کا گوشت حرام ہے ان سب کا استدلال اس حدیث مبارک سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درندوں میں جو جانور کچلی والا یعنی دانت  سے اپنا شکار پکڑتا ہوں اس کا کھانا حرام ہے ۔
خواب میں شیر کو دیکھنا :۔اگر کسی کو خواب میں شیر نظر آئے تو اس کی تعبیر کی مختلف صورتیں ہیں کبھی وہ ظالم و جابر کی شکل میں نظر آتا ہے کبھی زیردست بہادر مضبوط قسم کی گرفت کرنے والا خطرناک دشمن اور کبھی نہایت کامیاب حملہ اور شیر خواب میں اکثر موت کی خبر دیتا ہے بعض اوقات مریض کے لیے صحت کی نوید دیتا ہے شیر کو مارنا اس کی ہڈی اور بال کو خواب میں حاصل کرنا مال و دولت کا حاصل کرنا ہے اور شیر کو سامنے دیکھنا دائمی بخاری طویل قید خانے کی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہےشیر پر قابو پا لینا فتح و نصرت کی 
علامت ہے  

از قلم 
پروفیسر عالمہ روبینہ امین