۔1. حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں ۔
والد کا نام ابوالعاص بن ربیع تھا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بھی بہت محبت کرتے تھے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں حالت میں تشریف لائے کا عمامہ کندھے پر سوار تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں نماز پڑھائی جب رکوع میں جاتے تو اتار دیتے پھر جب کھڑے ہوتے تو کندھے پر چڑھا لیتے اس طرح پوری نماز ادا فرمائی۔
طبقات میں لکھا ہوا ہے کہ ایک روز کسی نے بارگاہ نبوت میں کچھ اشیاء ہدیہ کے طور پر بھیجیں ان میں ایک خوب صورت ہار بھی تھا امامہ رضی اللہ تعالی عنہا اس وقت ایک طرف کونے میں کھیل رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں یہاں اپنی عزیز ترین اہل کو دونگا ازواج نے خیال کیا کہ یہ شرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حاصل ہوگا لیکن آپ نے حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر خود وہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیا کہا جاتا ہے کہ یہ طوفاں شاہ نجاشی کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو اس وقت حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہ جوان ہو چکی تھیں خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے نکاح کر لیا۔
مشہور ہے کہ حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد نے حضرت زبیر بن العوام رضی رضی اللہ تعالی عنہ کو امامہ کے نکاح کی وصیت کی تھی چنانچہ یہ نکاح ان کی مرضی سے ہوا۔
جب 40 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مغیرہ بن نوفل کو وصیت کی کہ وہ امامہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کرلیں ابھی مغیرہ نے اس وصیت پر عمل نہیں کیا تھا کہ حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا کو امیر معاویہ کی طرف سے شادی کا پیغام موصول ہوا۔لیکن حضرت امامہ نے یہ پیشکش رد کردی اور فوراً مغیرہ کو یہ اطلاع دی انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی اجازت سے نکاح پڑھوا لیا حضرت مغیرہ کا یہ ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ اس مبارک دور کی پاک باز مسلمان خواتین میں کس درجہ دینی حمیت موجود تھی اور وہ دنیوی شان و شوکت اور امارات کو کتنی حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی۔