1 حضرت حواء علیہ السلام کو دنیا بھر کے تمام انسانوں کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے قرآن مجید کی رو سے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام سے نسل انسانی کی ابتداء ہوئی۔حضرت حوا علیہ السلام کی پیدائش سے متعلق قرآن کریم میں صرف اتنا ذکر ہے۔

وخلق منھا زوجھا۔۔
"اور اس نفس سے اس جوڑے کو پیدا کیا"
روایات میں ہے کہ حضرت حواء علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا۔
2. حضرت حوا علیہ السلام کیوں کہ ہر زندہ انسان کی ماں ہیں اور انسان حئی سے ان کا تعلق موجود ہے اسی لئے ان کا نام حواء مشہور ہوا ہے

3. حضرت آدم علیہ السلام کی تنہائی کا دور ختم ہوا وہ حضرت حوا علیہ السلام کو پا کر بے حد مسرور و شادمان ہوئے اللہ تعالی نے ان کی فطرت کے مطابق تسکین قلب اور اطمینان کا سامان بہم پہنچا دیا تھا گویا حضرت حواء علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی میں بہار بن کر آئیں اور انہیں سکون و اطمینان سے ہمکنار کیا جو تنہا رہتے ہوئے فردوس بریں میں بھی حاصل نہ ہو سکا تھا ۔
4. اللہ تعالی نے دونوں کو جنت میں رہنے کی اجازت عطاء کر دی تھی مگر ساتھ ہی حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا ء علیہ السلام دونوں کو ہدایت کی کہ وہ اس درخت کے پاس نہ جائیں

5. حضرت حوا علیہ السلام کی تخلیق کے بعد جنت کی بیش بہا نعمتوں اللہ تعالی اللہ کے انعامات اور وہاں کی سراپا اطمینان زندگی کا صحیح طور پر احساس ہوا کہ تنہائی کا کرب ہونے کے بعد انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ جنت کی زندگی کا پورا لطف اٹھایا تو ان میں فطری طور پر یہ خواہش بیدار ہوئی کہ وہ دائمی طور پرجنت میں ہی رہیں

6. شیطان نے ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ اگر وہ شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیں تو ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہ سکتے ہیں کیونکہ یہ شجر شجر خلد ہے اس کا پھل کھانے سے آرام اور قرب الٰہی نصیب ہو سکتا ہے شیطان نے یقین دلانے کے لیے قسم اٹھائی اور یہ باور کرایا کہ وہ دونوں کا دوست اور خیر خواہ ہے دشمن ہرگز نہیں ہے اس لیے آدم و حوا کو اس کی رائے پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔

7. اور سب سے پہلے انسانی خواص میں سے جو چیز ظاہر ہوئی وہ بھول تھی آخر انسان سے دونوں بھول گیا اور اللہ تعالی نے انہیں تاکید کے ساتھ اس درخت کے قریب تک پکڑنے سے منع کیا تھا یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے قربانی کو ٹھکرا کر دانستہ یہ حرکت کی ہو جو خود خداوند تعالیٰ نے ان کا سینہ علم کے نور سے منور فرما یاتھا حاصل تھا اور ان کا تھا اس لئے یہ بات تصور میں بھی نہیں آ سکتی کہ حضرت آدم علیہ السلام سے گناہ سرزد ہوا یا انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے حکم کے خلاف ورزی کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بھول گیا اور انہوں نے اس درخت کا پھل کھالیا اس سے انہیں اپنی تمام انسانی کمزوریوں کا احساس ہو گیا اور اپنی تمام بشری لوازم انہیں معلوم ہو گئے دیکھا تو دونوں نے خود کو بالکل برہنہ محسوس کیا اور آپ پریشانی کے عالم میں اپنے ستر پتوں سے ڈھانپنے لگے
اسی حالت میں ان دونوں پر عتاب الٰہی نازل ہوا اور بارگاہ الہی سے حکم ہوا کہ
" تم دونوں اکٹھے یہاں سے نکل جاؤ تم میں سے ایک دوسرے کا دشمن ہوا پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی پیغام آیا تو جو کوئی میری ہدایت پر چلے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ دکھ میں پڑے گا۔"
8. حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام نے انتہائی ندامت اور شرم ساری سے اپنی بھول کا اقرار کیا اور بے حد خشوع و خضوع کے ساتھ توبہ استغفار کرتے رہے گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتے رہے کہ الہی ہم نے جان بوجھ کر تیرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ ہم سے بھول ہوگئی آخر دریائے رحمت جوش میں آیا اور اللہ نے انہیں معاف فرما دیا ۔
ان دونوں سے یہ کہہ دیا گیا کہ تمہیں دنیا میں جا کر اللہ کے نائب کی حیثیت سے رہنا ہوگا تمہیں اور تمہاری اولاد کو ایک مقررہ مدت تک دنیا میں قیام کرنا ہوگا اور تمہارا دشمن ابلیس بھی تمہارے ساتھ ہوگا اگر تم دنیا میں ہمارے صحیح معنوں میں نائب اور نیک بندے ثابت ہوئے تو تمہارا اصلی وطن جنت تمہارے لئے مخصوص رہے گا ۔
اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کو زمین پر بھیج دیا گیا جہاں رہنے سہنے کے ڈھنگ اللہ تعالی نے انہیں سکھا دیے۔
ہم سب انہی کی اولاد ہیں اگر پروردگار کی بتائی ہوئی راہ پر چلتے رہیں تو وہ وعدے کے مطابق ہمارے لئے اصلی وطن یعنی جنت الفردوس کے دروازے یقین کھول دے گا۔
9. حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی اولاد سے متعلق زیادہ معتبر روایات موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بیٹے اور بیٹیوں کی تعداد صحیح تعداد معلوم ہے ۔حضرت حوا علیہ السلام کے قدرت الہی سے ہمیشہ جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے جن میں ایک لڑکا ہوتا دوسری لڑکی اس دستور کی رو سے ہو السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل کی شادی کا معاملہ پیش آیا عمر کے لحاظ سے بڑا تھا اور اس کی بہن بھابھی کی بہن سے زیادہ خوبصورت تھی اس لیے قابل کو یہ پسند نہ تھا کہ دستور کے مطابق قابیل کی بہن کی شادی کی جائے اسی جھگڑے کی وجہ سے قابیل نے قتل کردیا یہ دنیا کا پہلا قتل تھا جو ایک عورت کی وجہ سے ہوا دمشق کے شمال میں جبل قاسیون پر ایک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے جو مقتل ہابیل علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے ۔

10. حضرت حواء علیہ السلام کی عمر اور وفات سے متعلق کوئی قابل یقین روایت موجود نہیں بعض لوگوں نے جدہ میں کسی جگہ ان کی قبر بھی مشہور کر رکھی ہے کہا جاتا ہے کہ عرب میں جدہ کی بندرگاہ حضرت حواء علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے کیونکہ عربی میں جدہ دادی کو کہتے ہیں.
حضرت حضرت حواء علیہ السلام کی زندگی ہر عورت کو یہ درس دیتی ہے کہ عورت انسان کے لیے سراپا رحمت ،شفقت اور محبت بن کر آئی ہے یہی اوصاف اسے مکمل عورت کا درجہ بخش سکتے ہیں اگر عورت ان صفات سے محروم ہو تو وہ عورت نہیں بلکہ اس کے روپ میں کچھ اور ہے ۔
عورت ایثار و وفا کا سرچشمہ ہوتی ہے جنت سے نکلنے کے میں بصیرت افروز ایک سبق یہ بھی ہے کہ ایک وفا شعار اور محبت و صداقت کی شیدائی عورت کو ہمیشہ بدی اور گناہ کی طاقتوں سے ہر حالت میں خبردار رہنا چاہیے اور اپنے خاوند کو ہر ممکن طریقے سے اللہ کے بتائے ہوئے سلامتی کے راستے پر چلنے کے لئے صحیح مشورہ دینا چاہیے ۔