ایسا درخت جس کے پتے کبھی نہیں جھڑ تے 
 کہ کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے پاکیزہ درخت سے مراد مسلمان کا دل ہے یعنی مسلمان کے دل میں لاالہ الااللہ جمع ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے یعنی توحید کے کلمے کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور اور بھی بہت سے مفسرین کرام سے یہ بات مروی ہے کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام۔ مسلمان کی مثال کھجور کے درخت جیسی ہے ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔یعنی مسلمان کی شخصیت میں ارتقاء ہوتا ہے جیسے جیسے یہ ارتقائی عمل ہوتا ہے مسلمان کی شخصیت ثمربار ہوتی چلی جاتی ہے کھجور کا درخت سایہ دار ہوتا ہے تو مسلمان کی شخصیت کو بھی اتنا جامع اور ہمہ گیر ہونا چاہیے جس کہ سائے میں ایک جہان بسیرا کرے ۔ سورۃ الفاتحہ کے آغاز میں اللہ تعالی نے اپنی ربوبیت کو بھی عالمین کے ساتھ بیان فرمایا یہاں بھی بس فکر پہنچائی جا رہی ہے کہ اگر تمہارا رب عالمین کا رب ہے تو اپنی ذات سے اپنی ذات تک محدود نہ ہونا تمہارا رب عالمین کورزق فراہم کرتا ہے تمہاری شخصیت بھی سب کے لیےباعث نفع ہو۔ کھجور کا درخت اپنا اور پرایا دیکھ کر نفع نہیں دیتا بلکہ جو اس کے قریب آتا ہے درخت کا سایہ اس پر پڑتا ہے مسلمان بھی ایسا ہو کے جو اس کے قریب آئے سکون محسوس کرے انسان کی زندگی کے کئی پہلو ہیں انفرادی زندگی سماجی زندگی عائلی زندگی معاشی زندگی اور دیگر شعبہ ہائے حیات ان تمام جہت سے مسلمان مثالی اور نفع بخش ہونا چاہیے ۔ کھجور کے درخت سے مثال کاایک یہ بھی سبب ہے کہ کھجور کے درخت کا ہر حصہ مفید اور کارآمد ہوتا ہے کھجور کے درخت کا تنا مضبوط اور سخت ہوتا ہے لیکن اس کا اندرونی حصّہ نرم ہوتا ہے جسے عربی میں قلب النخل کہا جاتا ہے ۔مسلمان کی بھی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ ایک جانب ہر ظلم اور ناانصافی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوتا ہے تو دوسری جانب اس کا اندرونی نرم اور گداز ہوتا ہے بقول علامہ اقبال ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رضا میں حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ درخت کے پتے کبھی نہیں جھڑتے یعنی اس پر خزاں نہیں آتی اس میں مسلمان کے حسن عمل کی استقامت کا بیان ہے مسلمان اپنے نیک اعمال میں ثابت قدم ہوتا ہے اور ماحول کا اتار چڑھاؤ اس کی ثابت قدمی کو نقصان نہیں پہنچاتا یعنی مسلمان پر ماحول اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ مسلمان ماحول پر اثر انداز ہو جاتا ہے ۔اس حدیث مبارکہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں کھجور کا درخت آیا تھا لیکن میں نے جس کی وجہ سے جواب نہیں دیا اس روایت سے یہ سبق اس روایت میں یہ سبق بھی پنہاں ہے کہ سوال پوچھنے میں یا اپنی رائے کے اظہار میں جھجک نہیں ہونی چاہیے ۔الغرض معلم کائنات نے اس مختصر سی مثال کے ذریعے مسلمان کی شخصیت کو واضح کیا اور تعمیر شخصیت کی ایک سہل تشبیہ کے ذریعے پوری امت کو تعلیم دی اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔