📚🖋🌹

*بسم اللہ الرحمن الرحیم*

*شمسی سال کو منانے اور مبارک باد دینے کا حکم*

دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے ۔

*نئے سال کی خوشی منانے کا حکم*
نئے سال کی خوشی منانا انسانوں میں بہت قدیم ہے اور مختلف معاشروں نے اس کو الگ الگ انداز میں منایا ہے مثلا جشن نوروز۔

جب کہ جدید نئے سال کا جشن یورپی قدیم اقوام کا ایجاد کیا ہوا ہے، جو ان سے یورپ کے عیسائیوں میں بھی سرایت کر گیا۔ چناں چہ عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور چوں کہ یہودی روایت کے مطابق بچے کا نام پیدائش کے ساتوین دن رکھا جاتا ہے۔ اس لیے نیو ائیر کی خوشی میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتویں دن نام رکھے جانے کی خوشی بھی شامل کی جاتی ہے۔

نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱/دسمبر کی رات میں ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور ۱۲/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے؛ اس لیے کہ ان کی تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔

آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہو گیا ہے ، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔

گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتا ہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہو جاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا ہے :

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی

گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہو گیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)

حسن بصری علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(حوالہ بالا)

یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بنا سکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بنا سکیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی ۲/۵۸ قدیمی) ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔

یہ مختلف طرح کے جشن یہود و نصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں؛ جیسے: مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرز ڈے وغیرہ؛ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتاہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے؛ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اسلام نے سب کے حقوق مقرر کر دیے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے؛ اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاووں کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح کے ڈے منانے کی؛ بلکہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛ تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے؛ اس لیے کہ ہمارے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“۔ (ابودوٴد ۲/۲۰۳ رحمانیہ) ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟

نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولی کا کوئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتلاتے تھے: ”اللّٰہُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔

اس دعا کو پڑھنا چاہیے ؛ نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصا کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔

*ماضی کا احتساب*
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔

اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔ اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاک کلام میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے: ”وَأنْفِقُوْا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أنْ یَأتِيَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلاَ أخَّرْتَنِيْ إلیٰ أجَلٍ قَرِیْبٍ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ، وَلَنْ یُّوٴَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا إذَا جَاءَ أجَلُہَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ“۔(سورئہ منا فقون، آیت/ ۱۰،۱۱) ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں ۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے۔

*آگے کا لائحہ عمل*
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔

یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاة المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق)

ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقر وفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔

آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:” وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورئہ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱)

ترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کی بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کر دیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کر دیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔

ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛ بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔

ساتھ ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کر دیا جائے کہ مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بلکہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہٴ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا۔

ہمیں ہجری سن دوسرے مروجہ سنین سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑا گیا؛ تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں؛ نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کر سکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور نہ کسی مادی سبب کی احتیاج ہے۔ اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات ہے اور ایک خصوصیت ہمہ گیری بھی ہے، اسلام نے ان خصوصیات کی حصانت و حمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں نہ آیا کریں۔ ذرا اسلام کے رکن چہارم ماہ رمضان کے روزوں پر غور کرو کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر فرما دیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے تنگی و سختی میں پڑ جاتے۔ پس اسلام کی مساوات ِجہاں گیری کا مقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہو۔

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: والشَّمسَ والقمرَ حُسبانا۔ حُسبانا بالضم مصدر ہے جو حساب کرنے اور شمار کرنے کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آفتاب و ماہتاب کے طلوع وغروب اور ان کی رفتار کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے جس کے ذریعے انسان سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کا؛ بلکہ منٹوں اور سکنڈوں کا حساب بآسانی لگا سکتا ہے یہ اللہ جلَّ شانُہ ہی کی قدرتِ قاہرہ کا عمل ہے کہ ان عظیم الشان نورانی کروں اور ان کی حرکات کو ایسے مستحکم اور مضبوط انداز سے رکھا کہ ہزاروں سال گزر جانے پر بھی ان میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، یہ دونوں نور کے کرے اپنے اپنے دائرے میں ایک معین رفتار کے ساتھ چل رہے ہیں: ”لا الشمس ینبغی لہا أن تدرک القمر ولا اللیل سابق النہار“ ہزاروں سال میں بھی ان کی رفتار میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، قرآن کریم کے اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ سالوں اور مہینوں کا حساب شمسی بھی ہو سکتا ہے اور قمری بھی دونوں ہی اللہ تعالی کے انعامات ہیں یہ دوسری بات ہے کہ عام ان پڑھ دنیا کی سہولت اور ان کو حساب کتاب کی الجھن سے بچانے کے لیے اسلامی احکام میں قمری سن وسال استعمال کیے گیے اور چوں کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی احکام سب کا مدار قمری حساب پر ہے؛ اس لیے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو باقی رکھے۔ دوسرے حسابات شمسی وغیرہ اگر کسی ضرورت سے اختیار کیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن قمری حساب کو بالکل نظر انداز اور محو کر دینا گناہ عظیم ہے جس سے انسان کو یہ بھی خبر نہ رہے کہ رمضان کب آئیگا اور ذی الحجہ اور محرم کب ۔ (معارف القرآن ۳/۴۰۲،۴۰۳)

نیز حضرت تھانوی علیہ رحمہ لکھتے ہیں: چوں کہ احکام شریعت کا مدار حساب قمری پر ہے؛ اس لیے اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنا لے جس سے حسابِ قمری ضائع ہو جائے تو سب گنہگار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے؛ لیکن سنتِ سلف کے خلاف ضرور ہے اور حساب قمری کا برتنا بہ وجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لا بُد افضل و احسن ہے۔ (ماخوذ از بیان القرآن ص: ۵۸ ، ادارئہ تالیفات اشرفیہ پاکستان)
اس لیے ہمیں اپنی اس تاریخ قمری کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

*نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا*
نئے سال کی مبارک باد کے متعلق مختلف احباب اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہتے ہیں کچھ احباب نے فقیر کو اس کے متعلق میسج کیئے کہ اس بارے میں لکھوں سو فقیر نے فقہاء وعلماء کے فتاویٰ جات اور مزید کچھ دلائل پیش کر دیئے ہیں امید ہے اس مسلہ کے متعلق کافی ہونگے :

سال نو کا آغاز یقینا اللہ کی نعمت ہے، ایک مدت کا اختتام اور دوسری مدت کا آغاز عطاء الہی ہے، اس انعامِ خداوندی اور عطاءِ الہی پر پیش گاہ ذوالجلال میں نذرانۂ شکر پیش کرنا چاہئے لیکن اس موقع پر باہم مبارک باد دینا ، تہنیت پیش کرنا سلف صالحین وبزرگان دین کا طریقہ نہیں رہا، ان نفوسِ قدسیہ نے ہمیشہ تکلفات عرفیہ سے بالا تر ہو کر مقاصد کو پیش نظر رکھا ، دینی اغراض کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ البتہ اس اعتبار سے کہ نیا سال اللہ تعالی کی نعمت وعطا ہے ایک دوسرے کے حق میں خیر وبرکت کی دعاء کی نیت سے کلمات تبریک کہے جائیں تو شرعا کوئی مضائقہ نہیں

اسلامی سال کا آغاز توخلیفۂ دوم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ہوتا ہے اور اختتام حج اور قربانی کے مہینہ پر ہوتا ہے ، سال کا آغاز واختتام اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ اہل اسلام کے شب وروز، ماہ وسال خالص اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے لئے وقف ہونے چاہئے۔

نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے خیر و برکت کی دعا دینے اور نیک تمناؤں کا اظہار کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہيں، خاص طور پر جب اس کا مقصد محبت و الفت کا تعلق قائم کرنا اور خوشدلی کے ساتھ پیش آنا ہو۔ نئے سال کی مبارکباد دینے والا اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں زندگی کا ایک اور سال بھی دکھا دیا ہے ، جس میں ہمیں توبہ و استغفار اور نیک عمل کمانے کا مزید موقع میسر آسکتا ہے ۔ یہ مبارک باد خوشی اور اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار ہے ۔ یہ نہ تو شرعی حکم ہے اور نہ اس کی قطعی ممانعت ہے ، یہ ایک مباح عمل ہے ۔
ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو چھ حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب اسے خوشی پہنچے تو اسے مبارک باد دے۔ حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں درج کیا، اس میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ نئے سال یا مہینے کی آمد پہ وہ ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے : اللّٰهُمَّ أدْخِلْهُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍ مِّنَ الشَّیْطَانِ ۔
ترجمہ : اے اللہ! اس (نئے مہینے یا نئے سال) کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما ۔ (الطبرانی المعجم الاوسط، 6: 221، حدیث: 6241)

*فقہاءکرام کے اقوال*
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا : قال القمولي في الجواهر: لم أر لأصحابنا كلاما في التهنئة بالعيدين والأعوام والأشهر كما يفعله الناس ورأيت فيما نقل من فوائد الشيخ زكي الدين عبد العظيم المنذري أن الحافظ أبا الحسن المقدسي سئل عن التهنئة في أوائل الشهور والسنين أهو بدعة أم لا ؟
فأجاب بأن الناس لم يزالوا مختلفين في ذلك
قال : والذي أراه أنه مباح ليس بسنة ولا بدعة
ونقلہ الشرف الغزی فی شرح المنھاج ولم یزد علیہ
ترجمہ : یعنی (احمد بن محمد) قمولی (شافعی) رحمۃ اللہ علیہ نے “جواہر”* میں فرمایا : میں نے عیدین , سالوں اور مہینوں کی مبارکباد دینے کے بارے میں اپنے اصحاب کا کوئی کلام نہیں دیکھا جیساکہ لوگ اسے کرتے ہیں (یعنی مبارکباد دیتے ہیں) اور میں نے اس میں دیکھا جس میں شیخ زکی الدین عبدالعظیم منذری کے فوائد سے نقل کیا گیا کہ بےشک حافظ ابوالحسن مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے مہینوں اور سالوں کی مبارکباد دینے کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ بدعت ہے یا نہیں ؟
تو جواب دیا کہ لوگ ہمیشہ اس بارے میں مختلف رہیں ہیں ، (اور) فرمایا : اور وہ جسے میں خیال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ (مبارکباد دینا) مباح (جائز) ہے, نہ سنت ہے اور نہ بدعت ہے ۔ اور اس کو شرف غزی نے *”شرح المنہاج”* نقل فرمایا ہے اور اس پر زیادتی نہیں کی ۔ (وصول الامانی باصول التھانی صفحہ 51, 52 )

*عصر حاضر کے مفتیان کرام کے فتاوی*
*1۔ علاّمہ مفتی سید ضیاءالدین صاحب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ کا فتویٰ*
سرخی : f 1510 نئے سال کی مبارکباد دینا کیسا ہے ؟ مقام : اسپین,
نام : لئیق احمد ۔ سوال : مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ ہجری ہو یا عیسوی ، نئے سال کی مبارکباد دینا کیسا ہے ؟

جواب : سال نو کا آغاز یقینا اللہ کی نعمت ہے ، ایک مدت کا اختتام اور دوسری مدت کا آغاز عطاء الہی ہے، اس انعامِ خداوندی اور عطاءِ الہی پر پیش گاہ ذوالجلال میں نذرانۂ شکر پیش کرنا چاہئے لیکن اس موقع پر باہم مبارکب اد دینا ، تہنیت پیش کرنا سلف صالحین وبزرگان دین کا طریقہ نہیں رہا ، ان نفوسِ قدسیہ نے ہمیشہ تکلفات عرفیہ سے بالاتر ہوکر مقاصد کو پیش نظر رکھا ، دینی اغراض کو اپنا مطمح نظربنایا ۔ البتہ اس اعتبار سے کہ نیا سال اللہ تعالی کی نعمت وعطا ہے ایک دوسرے کے حق میں خیر وبرکت کی دعاء کی نیت سے کلمات تبریک کہے جائیں تو شرعا کوئی مضائقہ نہیں – اسلامی سال کا آغاز توخلیفۂ دوم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اورامام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ہوتا ہے اوراختتام حج اورقربانی کے مہینہ پرہوتا ہے ، سال کا آغاز واختتام اس جانب اشارہ کررہاہے کہ اہل اسلام کے شب وروز،ماہ وسال خالص اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے لئے وقف ہونے چاہئے – واللہ اعلم بالصواب
سید ضیاءالدین عفی عنہ شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر۔www.ziaislamic.com حیدرآباد دکن ۔

*2۔ مفتی سعودی عبر عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کا فتویٰ*
سوال ہوا : فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں ، یہ کہتے ہوئے کہ ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ (آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں) ، اس مبارکبادی کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب : بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد : نئے سال کی مبارک باد دینے کی ہم سلف صالحین سے کوئی اصل نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی یا کتاب عزیز اس کی مشروعیت پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیر مبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ ’’کل عام وأنت بخیر‘‘ یا ’’فی کل عام وأنت بخیر‘‘ کہے تو کوئی مانع نہیں کہ آپ بھی اسے ’’وأنت کذلک‘‘ (آپ بھی ہر سال بخیر رہیں) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور آپ کے لئے دعاءگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی کلمہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم ۔ (نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ)

*3۔ سعودی محقق و مفتی محمد بن صالح العثیمین کا فتویٰ*
کتاب ’’الضياء اللامع‘‘ صفحہ نمبر 702 میں لکھتے ہیں : یہ سنت میں سے نہیں کہ ہم نئے ہجری سال کی آمد پر عید منائیں یا مبارک باد کا تبادلہ کریں ۔ بعض دوسرے مواقع پر بھی سعودی محقق و مفتی محمد بن صالح العثیمین سے یہی سوال کیا گیا :
سوال : فضیلۃ الشیخ! آپ نے نئے سال کا ذکر فرمایا، ذرا یہ بھی بتا دیجئے کہ نئے ہجری سال پر مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے ؟ اور مبارکباد دینے والوں سے کیسا سلوک کرنا واجب ہے ؟
جواب : اگر کوئی آپ کو مبارک باد دے تو اس کا جواب دے دیجئے، لیکن خود کبھی پہل نہ کریں ۔ یہی اس مسئلہ میں صواب مؤقف ہے ۔ اگر کوئی شخص مثلاً آپ کو کہے، آپ کو نیا سال مبارک ہو تو آپ جواباً کہیں کہ آپ کو بھی مبارک ہو اور اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیر وبرکت والا بنا دے ۔ لیکن آپ خود سے اس کی ابتداء نہ کیجئے، کیوں کہ مجھے سلف صالحین سے یہ بات نہیں ملی کہ وہ نئے سال پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوں ۔ بلکہ یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ سلف تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور سے قبل محرم الحرام کو نئے سال کا پہلا مہینہ ہی تصور نہیں کرتے تھے ۔ (اللقاء الشھري: 44، سن 1417ھ کے آخر میں)
سوال : فضیلۃ الشیخ آپ کی کیا رائے ہے نئے ہجری سال کی مبارک باد کے تبادلے کے بارے میں ؟
جواب : میری رائے میں نئے سال کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ شریعت سے ثابت نہیں ۔ یعنی ہم لوگوں اسے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کے لئے یہ سنت ہے کہ نئے سال کی ایک دوسرے کو مبارک باد دیں ، لیکن اگر کوئی ایسا کر لے تو کوئی حرج نہیں۔ اور چاہیے کہ جب کوئی نیا سال مبارک کہہ دے تو وہ اسے اچھا جواب دے یعنی اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیروبرکت والا بنا دے ۔ ہماری اس مسئلے میں یہی رائے ہے ، اور یہ امورِ عادیہ (عام عادات) میں شمار ہوتے ہیں نا کہ امورِ تعبدیہ (عبادت) میں ۔ (لقاء الباب المفتوح: 93، بروز جمعرات 25 ذی الحجۃ سن 1415ھ،چشتی)

4۔ سوال(۴۸) : – کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: پہلی محرم کو اگر ہم نئے سال کی مبارک بادی ایک دوسرے کو دیں، تو کیا یہ بدعت میں شمار ہوگا، یا یہ کہنا بہتر ہوگا ؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق : اگر مبارک باد دینے کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کو اِسلامی مہینوں کے متعلق اَہمیت کا احساس ہو اورمحض رسم مقصود نہ ہو ، تو اِسلامی سال پر مبارک باد دینے کی گنجائش ہے ۔
عن عبید اللّٰہ عن أبیہ عن جدہ طلحۃ بن عبید اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا رأی الہلال، قال : اللّٰہم أہلِلہ علینا بالیمن والإیمان والسلامۃ والإسلام ربي وربک اللّٰہ۔ (سنن الترمذي، أبواب الدعوات / باب ما یقول عند رؤیۃ الہلال ۲؍۱۸۳، عمل الیوم واللیلۃ ۵۹۶) فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ املاہ : احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۴؍۲؍۱۴۳۱ھ ، الجواب صحیح : شبیر احمد عفا اللہ عنہ ۔ (کتاب النوازل جلد 17)

5۔ پہلی جنوری کو سب ایک دوسرے کو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ہیپی نیو اِیئر(happy new year.) کا میسیج بھی بھیجتے ہیں، تو کیا ہم بھی اس کے جواب میں ہیپی نیو اِیئر کہہ سکتے ہیں؟ کیا ایسا کہنا حرام ہے؟ کیا ایسا کہنے سے ایمان ختم ہو جائے گا؟ بسم الله الرحمن الرحيم الجواب => ہیپی نیو ایر (happy new year) کہنا حرام تو نہیں اور نہ ہی ایسا کہنے سے آدمی ایمان سے خارج ہوتا ہے، تاہم پہلی جنوری کو ہیپی نیو ایر کہنا نصاریٰ وغیرہ کا طریقہ، اس لیے ”ہیپی نیو ایئر“ کہنے سے احتراز کرنا چاہیے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند۔

6۔ نئے سال کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں یہ مباح عمل ہے۔
سوال نمبر:5043، مفتی محمد شبیر قادری، www.thefatwa.com

*خلاصہ کلام*
1۔ نئے سال کی آمد پر خوشیاں منانا مسئلہ : نئے سال کی آمد پر جو ہولی ڈے اور چھٹی رکھ کر جشن منایا جاتا ہے ، وہ یہود و نصاریٰ کی رسم ہے، شریعتِ اسلامی میں اس کی کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے، بلکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہود ونصاریٰ کی مشابہت اور ان کی عیدوں اور تہواروں میں کسی بھی طرح کی شرکت سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور اس پر سخت وعید بیان فرمائی ، آپ صلی اللہ علیہ و و آلہ سلم کا ارشاد ہے : جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ ان ہی میں سے ہے۔ اور جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے غیروں کے رسم و رواج کا طالب ہو، وہ عند اللہ سخت مبغوض اور نا پسندیدہ ہے اس لیے کرسمس ڈے ، برتھ ڈے، مدر ڈے، ویلین ٹائن ڈے، اور دیگر تمام ڈیز کو بطورِ عید منانا شرعاً ناجائز اور ممنوع ہے ۔ (الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : قولہ صلی اللہ علیہ و و آلہ سلم : ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم ‘‘ ۔ (ص/۵۵۹) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ :قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ’’ أبغض الناس إلی اللہ ثلاثۃ : ملحد في الحرم ، و مبتغ في الإسلام سنۃ الجاہلیۃ ، و مُطّلب دم امریٍٔ مسلم بغیر حق لیہریق دمہ ۔ رواہ البخاري ۔(ص/۲۷ ، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ ، الفصل الاول) (المسائل المہمہ۱۷۲/۷) واللہ اعلم بالصواب ۔

2۔ شریعت نے نئے عیسوی سال کی مبارک باد دینے سے منع نہیں کیا اور جس کام سے شریعت منع نہ کرے وہ بالکل جائز ہوتا ہے ۔
چناں چہ حدیثِ مبارکہ میں ہے : اَلْحَلاَلُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَ الْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہٗ ۔
ترجمہ : یعنی حلال وہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی (یعنی منع نہ فرمایا) وہ معاف ہے (یعنی اس کے کرنے پر کوئی گناہ نہیں) ۔ (جامع ترمذی ابواب اللباس باب ماجاء فی لبس الفراء ،سنن ابن ماجہ، المستدرک للحاکم)
کسی کو نیا عیسوی سال دیکھنا نصیب ہو جائے تو گویا اس کو نیکیاں کرنے کیلیے مزید مہلتِ زندگی دے دی گئی ہے اور یہ بات باعثِ سعادت و برکت اور اچھی ہے اور مبارک و اچھی بات کی مبارک باد دینے کی اصل صحیح حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے ۔ چناں چہ معراج کی رات جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر آسمانوں سے ہوا تو انبیائے کرام علیٰ نبینا و عليهم الصلاة والسلام نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو معراج پر مبارک باد پیش کی ۔ (کما فی کتب الاحادیث مشھور)
ان تمام حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مباح عمل سمجھتے ہوئے نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر مبارک باد دینا ، دعا دینا ، نیک تمناؤں اور جذبات کا اظہار کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔

*ھذا ما ظھر عندی واللہ تعالی اعلم بالصواب*

*وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب الکریم العظیم والصلوت والسلام علی رسولہ العزیز الروف الرحیم*

📚🖋🌹